آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع: حکومت آج حل نکالے، ہمارے لئے قانون اہم: چیف جسٹس
اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو حل کرنے کے لئے حکومت کو آج جمعرات تک کی مہلت دیتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر مدت ملازمت میں توسیع غیر قانونی ہے تو پھر اسے دیکھنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن اس طرح نہیں ہوتا جس طرح آرمی چیف کی تعیناتی کا کیا گیا۔ آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ ججوں، وزیراعظم اور صدر کے عہدے کی طرح آئینی ہے۔ آرمی چیف کوشٹل کاک کیوں بنایا گیا؟ آرمی بغیر کمانڈ ہوئی تو ذمہ دار کون ہو گا؟، آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہو گا؟ ہمارے لئے قانون اہم ہے، شخصیات کی کوئی حیثیت نہیں۔ نوٹیفکیشن دستاویزات تیار کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں کہیں جعلی ہی نہ ہوں،۔ عدالت نے 3 گھنٹے 33 منٹ سماعت کرنے کے بعد چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی مزید سماعت آج صبح تک ملتوی کردی۔ جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آرمی چیف کی توسیع کی قانونی حیثیت اور توسیع کے لئے اپنائے گئے طریقہ کار کے بارے میں مطمئن کریں ورنہ پھر ہمیں مجبورا کوئی فیصلہ دینا پڑے گا، اس کیس کے تین پہلو ہیں، توسیع کی قانونی حثیت، توسیع کا طریقہ کار اور توسیع کی وجوہات، لیکن ہمارے لئے پہلے دو پہلو اہم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی بھی وقت ہے معاملہ درست کرلیں، سپریم کورٹ کے جج جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کی بطور چئیرمین نیب تقرری کا نوٹیفکیشن جس انداز میں ہوا اور وزارت قانون والوں نے جس طرح انہیں بے توقیر کیا تو آخر کار ہمیں ان کی تقرری کانوٹیفکیشن کالعدم کرنا پڑا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا آپ خود کہتے ہیں توسیع اور تعیناتی الگ چیزیں ہیں، آئینی اداروں میں روز ایسا ہوتا رہا تو مقدمات کی بھرمار ہوجائے ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں آئین خاموش ہے، پانچ سات جنرل دس دس سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، آج یہ سوال سامنے آیا ہے تو اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے، وزیر اعظم کسے آرمی چیف لگاتے ہیں یہ ہمارا مسئلہ نہیں لیکن اگر توسیع غیر قانونی ہوئی تو پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گی ، ملک میں ہیجان برپا ہے، ملک میں ہیجانی کیفیت نہیں ہونی چاہیے اور ابہام دور ہونا چاہیے، ہم شام تک بیٹھ کر مقدمے کو سنیں گے، ہمیں پاک فوج کا بہت احترام ہے لیکن پاک فوج کو پتا تو ہو ان کا سربراہ کون ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے پچھلے روز کا نوٹیفکیشن پیش کیا اورکہا کہ توسیع آئین کے آرٹیکل 243کے تحت ہوئی ہے جبکہ عدالت کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ آرمی چیف ریٹائر نہیں ہوتا بلکہ مدت پوری ہونے کے بعد کمانڈ منتقل ہوجاتی ہے،کنونشن (روایت) کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کا فیصلہ کیا جائے ورنہ آرمی کمان کے بغیر ہوجائے گی،آرمی چیف کا پہلا تقرر انتیس نومبر 2016کو ہوا اور 28نومبر کی درمیانی رات یہ مدت ختم ہورہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت قانون کی بھر پور کوشش ہے کہ آرمی کمان کے بغیر ہوجائے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریٹائر جنرل چیف آف آرمی سٹاف نہیں بن سکتا لیکن کل ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ تقرری ریٹائر شخص کی تقرری ہوگی اور اگر اٹارنی جنرل کا موقف تسلیم کیا جائے تو پھر دس سال پہلے ریٹائر ہونے والے جنرل کو لاکر دوبارہ آرمی چیف مقرر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اٹارنی جنرل کہہ رہا ہے کہ آرمی چیف کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے توسیع کے نوٹیفکیشن میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ کابینہ نے دو بارہ تقرری کی سفارش کی اور وزیر اعظم نے دوبارہ تقرری کی سمری صدر مملکت کو بھیجی لیکن صدر مملکت کی طرف نوٹیفکیشن توسیع کا جاری ہوا۔دوران سماعت جنرل قمر جاویدباجوہ کے وکیل فروغ نسیم بھی پیش ہوئے لیکن پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین نے ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ ان کا لائسنس معطل ہے جب تک لائسنس بحال نہیں ہوتا ،وہ عدالت کے روبرو بحثیت وکیل پیش نہیں ہوسکتے۔چیف جسٹس نے فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ اپنے کسی ایسو سی ایٹ کو لے آئیں تاکہ کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو جس سے فیصلے میں تاخیر ہوجائے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے تین ریٹائر آرمی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد عہدوں پر بحال کرکے ان کا کورٹ مارشل کرنے کے مقدمات کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا گمشدہ درخواست گزار کا پتہ چلا؟ درخواستگزار ریاض حنیف راہی کوروسٹرم پر بلاتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کل کہاں تھے؟ہم نے آپ کی غیر موجودگی میں بھی درخواست کو زندہ رکھا ہوا ہے میڈیا پر غلط چلا کہ ہم نے ازخود نوٹس لیا ہے،آپ اپنی درخواست کو چلانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ جب درخواست گزار کوئی جواب نہ دے سکے تو چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ بیٹھ جائیں ہم مقدمہ سن رہے ہیں۔اس دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان بھی بنچ کے سامنے پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ ہم نے کل چند سوالات اٹھائے تھے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کے گذشتہ روز کے حکم پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ وہ کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں،آرٹیکل 243 کے تحت ہی صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243 میں آرمی چیف کی تعیناتی کا ذکر ہے،اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھائے کہ کیا آئین میں تعیناتی کی مدت کا بھی ذکر ہے؟کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کابینہ سرکر میں وقت مقرر نہیں تھا تو اس نقطے کو چھوڑ دیںجو عدالت نے کل خامیاں نکالی تھیں انہیں تسلیم کر کے ٹھیک کیا گیا،اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی لیکن کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انہوں نے کل آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا،عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا،عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی،چیف جسٹس نے کہاکہ اب تو حکومت اس کاروائی سے آگے جا چکی ہے اٹارنی جنرل نے کہاکہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھاچیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھااٹارنی جنرل نے کہاکہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اپنے دلائل مکمل کر کے عدالتی سوالات کے جواب دوں گاچیف جسٹس نے کہاکہ آرمی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنائے گئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی ریگولیشن ،آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ انتہائی اہم معاملہ ہے،اس میں آئین خاموش ہے،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ تاثر دیا گیا کہ آرمی کی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ کسی بھی رینک کی مدت ملازمت کا تعین نہیں کیا گیا،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ بعض لیفٹیننٹ جنرلز کو تعیناتی کے بعد 4 سال کی مدت نہیں ملتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا چیف جسٹس نے کہاکہ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے؟کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کر دیتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف کی تعینات کی مدت پر قانون خاموش ہے آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا ؟ جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال کیا کہ جنرل قمر باجوہ کی بطور آرمی چیف پہلی تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟کیا پہلی بار جنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لیے تھی؟اورآرمی چیف کی مدت تعیناتی کا اختیار کس کو ہے؟چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آپ کا سارا کیس آرمی ریگولیشنز کی شق255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ وفاقی حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آرمی کے قانون کے مطابق دوران جنگ ممکن ہے افسران کو ریٹائرمنٹ سے روکاجاتا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں،حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پر ریٹائر ہوتے ہیں۔ہم قانون کی سکیم کوسمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں،جس سیکشن 255 میں کل ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آرمی ایکٹ میں سپہ سالار کی مدت تعیناتی کے متعلق کچھ نہیں ، اگر آرمی ایکٹ میں مدت تعیناتی نہیں تو رولز میں کیسے ہو سکتی؟ چیف جسٹس نے کہاکہ متعلقہ رولز آرمی ایکٹ کی دفعہ 176اے کے تحت بنائے گئے جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں صرف لکھا ہے کہ آرمی چیف فوج کی کمانڈ کرینگے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت کو فوج کی کمانڈ اور سروس کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آج 184/3 کے حوالے سے رولز فل کورٹ اجلاس میں زیر بحث آئیں گے۔اس دوران سماعت میں وقفہ کردیا گیا وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہواتو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹکڑوں میں جواب کا کوئی فائدہ نہیں،آرمی ایکٹ کو سمجھے بغیر ہمیں دلائل کیسے سمجھ آئیں گے،آپ کا ایک ایک لفظ سن کر سمجھنے کی کوشش کریں گے، جسٹس منصور نے کہاکہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے،اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ آرمی چیف کی تعیناتی آرٹیکل 243 کے تحت ہوتی ہے اگراس میں مدت مقرر نہ ہو تو کیا آرمی چیف تاحیات عہدے پر رہیں گے؟تعیناتی کی مدت کو 1947 کے کنونشن سے اخذ کیا جاتا ہے،عوام کو آگاہ کروں گا تعیناتی کی مدت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟۔چیف جسٹس آصف کھوسہ نے واضح کیا کہ یہ قانون کی عدالت ہے یہاں شخصیات معنی نہیں رکھتی،جو کام قانونی طور پر درست نہیں اسے کیسے ٹھیک کہہ سکتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون ایک چھڑی کی طرح ہوتا ہے اور بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس منصور شاہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ پہلا سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہو گی؟آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے،تودوبارہ آرمی چیف تعیناتی کس قانون کے تحت ہو گی؟کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے ؟۔اس دوران چیف جسٹس نے کہاکہ ایک طریقہ یہ ہے کہ اپ کو دلائل مکمل کرنے دیں ،پھر قوانین پڑھیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے قانون پر بات کر لیں،پھر اپنا موقف دیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کے ہر سوال کا جواب دوں گاآرمی ریگولیشنز میں افسران کو سزا دینے کے رولز ہیں آرمی ایکٹ کا اطلاق تمام افسران ،جونیئرکمیشن اور وارنٹ افسران پر ہوتا ہے،جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ سپہ سالار کو چیف آف آرمی سٹاف کہا جاتا ہے،لفظ سٹاف کا کیا مطلب ہے؟چیف جسٹس نے کہاکہ سٹاف کا مطلب شاید آرمی میں کام کرنے والے تمام لوگ ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی میں کئی سویلین لوگ بھی کام کرتے ہیں،جسٹس منصور نے کہاکہ سٹاف کا سربراہ حاضر سروس شخص ہی ہو سکتا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت کا انحصار سیکشن 255 پر ہے جو آرمی افسر کے لیے ہے،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی افسر وہ ہے جو کمیشنڈ افسر ہو،آرمی چیف کو کسی بھی افسر کی برطرفی کا اختیارحاصل ہے۔جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آرمی چیف کو چیف آف آرمی سٹاف کیوں کہتے ہیں؟چیف آف آرمی آفیسر بھی تو کہہ سکتے ہیں سٹاف کا کیا مطلب ہے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آرمی چیف تمام آرمی افسران اور سٹاف کا چیف ہے۔جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ان تمام باتوں کو چھوڑ کر سوال بار بار مدت کے تعین کا آرہا ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مدت کے تعین سے متعلق عدالت کو بتاوں گا۔میں آرمی ایکٹ کے چیپٹر ون ٹو اور تھری کو پڑھوں گا،چیف جسٹس نے کہاکہ آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے"میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا" یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسر کی مدت سروس کا ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مدت ملازمت کا زکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیںآرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوج کوئی جمہوری ادارہ نہیں ہے دنیا بھر میں فوج کمانڈ پر ہی چلتی ہے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کسی افسر کی مدت تعیناتی کا ذکر نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ تعیناتی کی مدت میں توسیع کا ذکر رولز میں ہے چیف جسٹس نے کہاکہ قواعد(رولز)ہمیشہ ایکٹ اور قانون کے تحت ہی بنتے ہیں،ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں کسی بہت قابل افسر کو ریٹائر ہونے سے روکا جائے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ حکومت ریٹائرمنٹ کو محدود اور معطل کر سکتی ہے،ریٹائرمنٹ محدود کرنے کا مطلب ہے اگلے حکمنامے تک کام جاری رکھا جائے،ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی طور پر ہوتی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ریٹائرمنٹ محدود یا معطل مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے،ہو سکتا ہے ماہرین یا تجربہ کار افسران کو جنگ کے دوران دوبارہ بلایا جائے۔ سیکشن 255 کے تحت 3 ریٹائرڈ افسران کو بحال کر کے سزا دی گئی،اگر ریٹائرمنٹ معطل نہیں کی تو تینوں افسران کو سزا کس قانون کے تحت ہوئی،ریٹائرڈ افسر کا ٹرائل فوج نہیں کر سکتی،عدالت کوآگاہ کیا جائے فوج سیکشن 255 پر کس طرح عمل کرتی ہے؟سیکشن 255 کا اطلاق ریٹائرڈ یا ریٹائرمنٹ کے قریب افسران پر ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی جنرل کیلئے ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر مقرر نہیں۔آرمی جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت بھی مقرر نہیں ہے ، جسٹس مظہر عالم نے کہاکہ عمر کے علاوہ جنرل کیلئے مدت کا تعین کیا گیا ہے یا نہیں؟چیف جسٹس نے کہاکہ آرمی چیف دوران جنگ افسران کو ریٹائرمنٹ سے روک بھی سکتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ جرم کرنے والوں کو سیکشن 255 کے تحت نہیں بلایا جاتا،جرم کرنے والے افسران پر آرمی ایکٹ کی شق 292 کا اطلاق ہوتا ہے،ایکٹ میں واضح ہے کہ ریٹائرڈ افسر کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل تک ریٹائرمنٹ کی عمر موجود ہے،جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیاکہ آرمی چیف کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر کیا ہے،،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی چیف ایک عہدہ ہے جس کا رینک ایک جنرل ہوتا ہے،جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ سیکشن 255 میں وفاقی حکومت کا ذکر ہے آرمی چیف کو وفاقی حکومت نہیں وزیراعظم کی سفارش پر صدر تعینات کرتے ہیںجسے تعینات وفاقی حکومت نے نہیں کیا اسے حکومت چھیڑ بھی نہیں سکتی،آرمی چیف پر سیکشن 255 کا اطلاق نہیں ہوتااس موقع پر عدالت نے سزا یافتہ تینوں سابق اعلی فوجی افسران کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ تفصیلات دیکھ کر جائزہ لیں گے سزا کس قانون کے تحت سزاہوئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی کے قوائد میں یہ نہیں لکھا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل ہو سکتی ہے،اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ فور سٹار جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیاکہ کہاں لکھا ہے کہ آرمی چیف خود اپنی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تعینات کرنے والا برطرف کر سکتا ہے،رینک واپس نہیں لے سکتا،جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا ہے کوئی چاہے ساری عمر جنرل رہے اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیںاس دوران ایک بار پھر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم کے درمیان مکالمہ ہوا بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پرسوں رات بارہ بجے تک ختم ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ انتہائی اہمیت کا مقدمہ ہے،فوج کا احترام ہے،فوج کے سربراہ بارے ابہام نہیں ہونا چاہیے یہ مقدمہ جلد سماعت کا ہے، اس دوران وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم کا وکالت کا لائسنس معطل ہے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے اس پر فروغ نسیم نے کہاکہ مجھے اپنے دفاع میں بات کرنے کی اجازت دی جائے چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آپ کو مکمل موقع دیں گے، لیکن پہلے ہم اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں۔ہم شام تک بیٹھ کر مقدمے کو سنیں گے، ابہام دور ہونا چاہیے، ملک میں ہیجانی کیفیت نہیں ہونی چاہیے، اس کیس کا فیصلہ کریں گے چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے اب تک جو اسکیم اور ریگولیشنز بتائیں اس سے ہم مطمئن نہیںہم آپکو سننا چاہتے ہیں، جسٹس منصور شاہ نے کہاکہ آپکی قابلیت کا ادراک ہے ہمیںقانون کے مطابق آرمی چیف 28 اور 29 نومبر کی درمیانی شب 12 بجے ریٹائر ہو جائیں گے۔ لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا،عدالت کے ساتھ ایک اور صاف بات کریں۔جو سٹاف کا حصہ نہیں وہ آرمی چیف کیسے بن سکتا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ دوبارہ تعیناتی کا مطلب ہے کہ پہلی تعیناتی ختم ہو گئی،پاک فوج کا معاشرے میں بہت احترام ہے،وزارت قانون اور کابینہ ڈویژن کم از کم سمری اور نوٹیفکیشن تو پڑھیں،فوجیوں نے خود آ کر تو سمری نہیں ڈرافٹ کرنی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کل رات 12 بجے ختم ہو گی،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کنونشن شاید اس وقت آتے ہیں جب قانون میں خلا ہو،توقع ہے آپ کے دلائل سے خلا ختم ہو جائے گا،منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر آرمی چیف خو دوباری تعینات کیا ہے تو صاف بتائیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کو مدت مکمل ہونے پر دوبارہ تعینات کیا گیا ہے،اس دوران آرمی چیف کی تعیناتی کا نیا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیا گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک ریٹائر جج کو چیئرمین نیب لگایا گیا تھا،چیف جسٹس نے واقعہ سناتے ہوئے کہاکہ جسٹس ریٹائر دیدار شاہ کو وزارت قانون نے رسوا کیا۔وزارت قانون کی وجہ سے دیدار شاہ کی تعیناتی کالعدم ہوئی ابھی بھی وقت ہے حکومت دیکھے یہ کر کیا رہی ہے؟،چیف جسٹس نے کہاکہ اعلی ترین فوجی افسر کے ساتھ تو اس طرح نہ کریں،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا کام نہیں ہو رہا ،ماضی میں بھی توسیع ایسے ہی ہوتی تھی، جسٹس مظہر عالم نے کہاکہ ماضی میں کسی نے کبھی توسیع کا عدالتی جائزہ نہیں لیا،یہ معاملہ پہلی بار عدالت کے سامنے آیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ سمری کے مطابق وزیراعظم نے توسیع کی سفارش ہی نہیں کی،سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے،کیا کسی نے سمری اور نوٹیفکشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی؟کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہو گئی،آرٹیکل 243 کے تحت تعیناتی ہوتی ہے توسیع نہیں،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف کی مدت کم کر کے دوبارہ تعینات کیا،چیف جسٹس نے کہاکہ کنونشن روایات ہیں جو برطانوی آئین سے اخذ کی گئی ہیں،جسٹس منصور کا اٹارنی جنرل سے کہنا تھا کہ اب آپ نے نئی بات شروع کر دی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ جب آئین موجود ہے تو روایات کی کیا ضرورت ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی کو بغیر کمانڈ کے نہیں چھوڑا جا سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا آرمی کمانڈ کے بغیر رہے چیف جسٹس نے کہاکہ نوٹیفکیشن کے مطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو محدود کیا گیا ہے،جسٹس منصور نے کہاکہ پرانے نوٹیفکیشن میں تعیناتی کا ذکر تھا اس میں توسیع کا ہے ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جو سمری صدر کو بھجوائی گئی تھی اس میں آئین کے آرٹیکل 243 کا ذکر ہے۔صدر نے دستخط دوبارہ تعیناتی کے ہی کیے ہیں،وزارت کی سطح پرشاید نوٹیفکیشن میں توسیع لکھا گیا،جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ 29 نومبر کو جنرل باجوہ آرمی سٹاف کا حصہ نہیں ہونگے، چیف جسٹس نے کہاکہ نوٹیفکیشن کے مطابق 29 نومبر سے دوبارہ تعیناتی ہو گی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ کمانڈ کی تبدیلی تک جنرل باجوہ دوبارہ ریٹائر نہیں ہونگے،چیف جسٹس نے کہاکہ سمری میں لکھا ہے 29 نومبر کو جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے،جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے جنرل باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس ایک دن کا وقت ہے اس معاملے میں تین چیزیں ضروری ہیں ایک تو آرمی چیف کی تقرری کو قانون کی سپورٹ ہونی چاہیئے اور یہ عمل قانونی ہونا چاہیئے جبکہ تقرری کی وجوہات بھی بتائی جانی چاہیئیں تاہم پہلی دوچیزیں قانونی سپورٹ (لیگل بیکنگ )اور پروسیجر چیزیں لازمی ہیں ۔ اس دوران آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ انہیں پیش ہونے کا موقع دیا جائے تو عدالت نے ان کے پیش ہونے کی استدعا مسترد کردی چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ وہ اپنے ساتھ معاون وکیل لے آئیں اور اس کے ذریعے بات کرسکتے ہیں ۔