• news

حکومت 6 ماہ میں قانون سازی کی پابند ‘تقرری عدالتی حکم کے تابع نہیں : آئینی ماہرین

لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو چھ ماہ کے اندر ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے آرمی چیف کی سروس کی شرائط اور مدت کے تعین کا حکم دیا ہے۔ آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق نئی قانون سازی یا قانون میں ترمیم سادہ اکثریت سے ہوگی۔ فاضل عدالت نے وفاقی حکومت کو قانون سازی چھ ماہ میں کرنے کیلئے پابند کیا ہے مگر آرمی چیف کی نئی تقرری کو عدالتی حکم کے تابع نہیں کیا۔ فاضل عدالت نے یہ ہدایت کی ہے کہ چھ ماہ میں آرمی چیف کی سروس سے متعلق ٹرمز اینڈ کنڈیشنز بذریعہ قانون سازی طے کرے۔ آرمی چیف کی نئی تقرری چھ ماہ میں کی جانے والی قانون سازی کے تحت ہی ہوگی۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے کہا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری توسیع یا از سر نو تقرری سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بات طے ہو گی کہ فاضل عدالت نے کن قانونی بنیادوں پر معاملے کا نوٹس لیا اور حالیہ فیصلے کے ذریعے کس حد تک سقم کو دور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کیا کہ اس حد تک عدالت کا فیصلہ واضح ہے کہ سادہ اکثریت سے ہی قانون سازی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فروغ نسیم کا کابینہ سے استعفیٰ دینا بھی قانون سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمد اظہر صدیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کسی بھی معاملے پر نوٹس لینے اور قانون کی تشریح کا اختیار ہے مگر معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس کی سماعت بند کمرے میں ہونی چاہئے تھی۔ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی سروس کی مدت میں شاہد اس لئے لمٹ نہیں رکھی گئی کہ اس بارے عوامی نمائندوں کو اختیار دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ معاملے پر بہت کچھ تفصیلی فیصلے کے بعد واضح ہوگا عدالت کے مختصر حکم کے تحت یہ بات واضح ہے کہ وفاقی حکومت سادہ اکثریت سے قانون سازی کر سکتی ہے جو کہ حکومت کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آرمی چیف کی نئی تقرری پر کوئی پابندی نہیں لگائی البتہ حکومت کو چھ ماہ میں نئی قانون سازی کیلئے پابند کیا ہے۔سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مدبرانہ ہے، حکومت نے اس کیس میں بہت سی قلابازیاں کھائیں، بنچ نے بیلنس طریقے سے اس کیس کو دیکھا، قانون سازی کے بعد کچھ چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ ماہر قانون و آئین سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ قانون اور ریگولیشن 255 میں سقم تھا جس کے باعث ابہام پیدا ہوا آرٹیکل 243 میں مدت ملازمت کا ذکر نہیں تھا۔

ای پیپر-دی نیشن