مقدمات زیادہ جج کم، دلائل کے بعد فیصلہ نہ کریں تو ججز اور قاصد میں فرق نہیں: چیف جسٹس
ملتان(نوائے وقت رپورٹ+سپیشل رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ ججز کو معاشرے میں عزت ملتی ہی اس لیے ہے کہ وہ فیصلے کرتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار ملتان سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ججز دلائل سننے کے بعد فیصلے نہیں دیتے تو ان میں اور قاصد میں کوئی فرق نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کیسز میں التواء صرف دو ہی صورتوں میں ہوگا کہ وکیل صاحب انتقال کرجائیں یا جج صاحب رحلت فرماجائیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جج اور وکیل انصاف کی گاڑی کے پہیے ہیں مگر سائل اس گاڑی کا گھوڑا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اچھا وکیل ہونے کے لیے تاریخ، ریاضی اور ادب پر عبور ضروری ہے، اس لیے ہر کیس میں ایک سینئر وکیل کے ساتھ دو جونیئر ہونے چاہئیں تاکہ یقینی بنائیں کہ کوئی نوجوان وکیل سینئر وکیل کی تربیت سے محروم نہ رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ سے کئی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں، وکیل صرف یہی چاہتے ہیں کہ جج صاحب ان کی بات سن لیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے خطاب کے ابتدائی کلمات سرائیکی زبان میں ادا کیے اور کہا کہ جو ڈاکومینٹری یہاں دکھائی گئی، وہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تقریر کا موقع ملے تو لوگوں کو بتائوں کہ میں بھی ملتانی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں ملتان بار روم میں ٹیبل ٹینس چیمپئن شپ جیتی تھی، سردار لطیف کھوسہ اس بار کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ماضی میں کیسزکم تھے جج تسلی سے کیسز سن لیتے تھے اب کیسز میں اضافہ ہوگیا ہے اور ججوں کی تعداد کم ہے۔ زیادہ کیسز کی وجہ سے شاید جج، وکیل صاحبان کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔ اب نئے وکلاء جتنی تعداد میں آرہے ہیں اتنے سینئر وکلاء میسر نہیں۔ اب جونیئرز اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کے استاد ہی جونیئرز ہیں۔ وکالت پیسہ بنانے کیلئے نہیں خدمت کیلئے کی جاتی تھی۔ پہلے عدالت میں بدمزگی نہیں ہوتی تھی اب حالات وہ نہیں رہے۔ملتان سے سپیشل رپورٹر کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جج اور عام آدمی میں فرق فیصلہ دینا ہے، جوڈیشل سسٹم کو مضبوط بنانے کے ساتھ وکلاء کی پرانی روایات کو بھی بحال کرنا ہوگا، نوجوان وکلاء کو تربیت دینی ہوگی تاکہ ایک گاڑی کے دو پہیوں کے آگے بندھے گھوڑے یعنی سائل کو انصاف فراہم کیا جاسکے۔ نظام عدل اور قانون میں سب سے اہم سائل ہے۔ دھوکہ باز نہ تو وکیل اور نہ ہی ڈاکٹر ہو سکتا ہے، جو دھوکہ باز ہوتا ہے وہ دراصل وکیل اور ڈاکٹر نہیں ہوتا ہمیں سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگا ۔ پانچ سال قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان کی عدالت میں کسی مقدمہ کی سماعت ملتوی نہیں ہوگی۔ جسٹس امین الدین خان کو جب سپریم کورٹ کا جج ایلیویٹ کیا گیا تو بہت لوگوں نے کہا کہ کہیں فیورٹ ازم تو نہیں، ملتانی ہونے کی وجہ سے لیکن ان کو یہ کہا کہ سب میرٹ پر ہوا ہے جو وقت ثابت کرے گا۔