آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ملکی مفاد: شاہ محمود، قانون سازی میں اپوزیشن ساتھ دیگی: فردوس عاشق
ملتان، اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت ‘صباح نیوز، آن لائن) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کابینہ سے مشاورت کے بعد اور موجودہ سکیورٹی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کیے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ وزیراعظم نے کابینہ سے مشاورت کے بعد اور موجودہ سکیورٹی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔آرمی چیف سے متعلق سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عدالت نے کچھ چیزوں کی نشاندہی کی، ہم نے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ ماضی کے برعکس عدالت کے فیصلے کا احترام کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عدالت نے کہا ہے کہ کچھ ابہام ہیں جن کو دور کر دیا جائے گا، تفیصلی فیصلہ آنے کے بعد حکومت اور کابینہ وزیراعظم کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ اس دوران وزیر خارجہ نے بابری مسجد اور مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھی بات کی۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ وادی میں 118 روز سے کرفیو نافذ ہے اور اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت فالس فلیگ آپریشن بھی کر سکتا ہے مگر ہماری افواج ہمہ وقت بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ معاملے پر او آئی سی نے تشویش کا اظہار کیا اور ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے۔ دریں اثناء وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ نئے انتخابات ضرور کرائے جائیں گے لیکن 5 سال بعد، مولانا کے فرزند کی موجودگی میں پارلیمان جعلی نہیں ہوسکتی۔ ان کے فرزند، ان کی جماعت کے دیگر رہنما ایوان میں موجود ہیں۔ معاون خصوصی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا فضل الرحمٰن گزشتہ تقاریر کی روشنی میں آگے بڑھ رہے ہیں، یہ کہا کرتے تھے پارلیمان کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا نواز شریف کے لندن پہنچتے ہی ہنگامی حالت یکا یک ختم ہوچکی، ن لیگ نے الیکشن کمشن میں ایک صفحہ پیش کیا وہ بھی قطری لگتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا حکومت آرمی چیف کی مدت میں توسیع سے متعلق قانون قومی اسمبلی اور سینٹ سے بآسانی منظور کرا لے گی۔ قانون سازی میں اپوزیشن بھی ساتھ دے گی کیونکہ یہ سیاسی نہیں‘ قومی معاملہ ہے۔ عدالت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج کر پارلیمنٹ کی بالادستی پر مہر لگائی ہے۔