اتوار‘ 3؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ یکم دسمبر 2019ء
اثاثے چھپانے کا معاملہ‘ کرکٹر محمد حفیظ نے ایف بی آر سے دوسری بار مہلت مانگ لی
یہ تو شکر ہے حفیظ نے دوسری مرتبہ مہلت مانگ لی۔ ورنہ بڑے بڑے سٹار تو جواب دینا اور معلومات فراہم کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کیا ایف بی آر والوں کو باقی نامور بڑے بڑے کھلاڑی سب ایمانداری سے اثاثے ظاہر کرنے والے نظر آتے ہیں یا پھر کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔ اس گھپلے کے کھیل میں سب خوب کھیل کھیلتے ہیں۔ ذرا ان کی بودوباش دیکھ لیں ساری کہانی سامنے آ جائے گی۔ اثاثوں کے علاوہ بھی بہت کچھ چھپایا جاتا ہے۔ یہ صرف کھلاڑیوں کا مسئلہ نہیں ۔بڑے بڑے فلمسٹار، سٹیج اداکار، گلوکار اور ماڈلز بھی اس صف میں قطار اندر قطار کھڑے نظر آتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ اس قبیلے کے لوگ ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایف بی آر کو جھنڈی کراتے ہیں۔کیونکہ انکے ہاتھ دور دور تک پہنچے ہوتے ہیں برسوں پہلے ایک پنجابی فلم میں ہیروئن اپنے کوٹھے پر چھاپہ مارنے والے پولیس افسر سے کہتی ہے بہتر ہے کہ میرے ہاں پکڑے تماش بین کو چھوڑ دو ورنہ تیرے تھانے پہنچنے سے پہلے ہی میرا فون اسے چھڑ والے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ سو آج بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے اسکی مرضی۔ ذرا شوبز ہو یا سپورٹس بنر‘بڑے اسٹارز کا طرز زندگی دیکھ لیں اور ظاہر کردہ اثاثے چیک کر لیں فرق خودبخود ظاہر ہو جائے گا۔ یہ بھی چھپے رستم ہیں‘ سرمایہ دارانہ اور تاجرانہ ذہنیت ان میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے آمدن اور اثاثے چھپانے والی۔
٭…٭…٭
آج تک کوئی قتل نہیں کیا‘ یوسف ٹھیلے والے کا نیا بیان
بھولے بادشا ہو! یوں کیوں نہیں کہہ رہے کہ قتل ایم کیو ایم نے کرائے تھے۔ بیان سے مکرنا ہمارے ہاں عام ہے۔ دنیا بھر میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہو گا۔ مگر ہمارے ہاں چونکہ مجرم اور ملزم دونوں ہی ایسے بیانات جاری کرتے ہیں جیسے سیاستدان یا حکمران سیاسی بیان جاری کرتے ہیں اسلئے یوٹرن لینا برا نہیں سمجھا جاتا۔ سچ بولنا پل صراط پر چلنے سے کم نہیں۔ اسلئے لوگ اس خطرناک کام سے پرہیز کرتے ہیں۔ شاید انہیں ڈر ہے کہ وہ تلوار سے تیز بال سے باریک اس پل صراط سے کہیں پھسل کر گر نہ پڑیں۔ حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ سچ کہنے والا اول تو پل صراط سے گرے گا نہیں۔ اگر گر بھی گیا تو دوزخ میں نہیں جنت میں گرے گا۔ اب یوسف ٹھیلے والا ایم کیو ایم کا مقبول کا بڑی مہارت کے ساتھ کرتا اور لاش اپنے ٹھیلے پر لادکر کہیں گمنام مقام پر پھیک آتا یا زمین میں دبا دیتا تھا۔ پارٹی قیادت کو بھی ٹھیلے والے کے کام پر کامل اعتماد تھا۔ وہ درجنوں مقتولین کو ٹھیلے پر ڈال کر نجانے کہاں کہاں پھینکتا رہا۔ ایک اعلیٰ شخصیت کے ساتھ اسکے تعلق کی کہانی نجانے کہاں سے گھڑی گئی کہ اس اعلیٰ شخصیت کو وضاحتیں دینا پڑیں۔ اب خود یوسف ٹھیلے والا ایم کیو ایم کے بے شمار مخالفین کے قتل کے اعتراف سے مکر گیا ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ وہ صرف لاشیں پھینک آتا تھا۔ چلیئے اسکی پہلی کہانی چھوڑ کر اگر دوسری کہانی سچ مان لی جائے تو کیا یہ کم بھیانک جرم ہے۔ اس ظالم شخص کو تو اس جرم پر ہی کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے آخرت کی سزا تو اس بے رحم شخص کو جو ملنی ہے وہ بھی مل کر رہے گی کیا لاشیں ٹھکانے لگانا اعانت جرم نہیں۔
٭…٭…٭
بھارت میں 20 لاکھ مالیت کا پیاز سے بھرا ٹرک لوٹ لیا گیا۔
جناب یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی کئی وارداتوں میں چور نقدی چھوڑ کر صرف سبزیاں چرا کر لے گئے ہیں۔ آج کل بھارت میں بھی سب اچھا نہیں ہے۔ وہاں بھی سبزیوں کے ریٹ آسمان کو چھو رہے ہیں۔غریبوں کے لئے ہانڈی پکانا مشکل ہو گیا ہے۔ پیاز 100 روپے کلو پر وہاں کے لوگ لوٹ مار پر اتر آئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ کافی بے صبرے ہیں۔ ورنہ ہمارے ہاں تو پیاز کا ریٹ عام طور پر 80 سے اوپر ہی جاتا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو کوئی سبزی والے سے پوچھنے کی ہمت کرے کہ بھیا یہ دام کیوں لے رہے رہو۔ سرکاری ریٹ تو دیکھو اسکا جواب دکاندار یوں ٹکا کے دیتا ہے کہ لینا ہے تو لیں ورنہ اگلی دکان کا رخ کریں۔ یا پھر جہاں سرکاری ریٹ پر ملتا ہے وہاں سے لیں۔ اب جن کو اپنی عزت پیاری ہے وہ کیوں سبزی والے کے منہ لگیں۔ یہ تو (تبدیلی کے ساتھ)
جسکو ہو اپنی عزت عزیز
وہ سبزی کی دکان پر جائے کیوں
مگر لگتا ہے اب کہیں ہمارے ہاں بھی ٹماٹر سے بھرا ٹرک یاپیاز سے لدا ٹرک راستے میں نہ لٹنے لگے۔ یوں آرھتیوں کو سبزیوں سے بھرے ٹرک کے ساتھ باقاعدہ گارڈ بھی رکھنا پڑیں گے۔ ڈرائی فروٹ کی مہنگائی کی وجہ سے اسکی چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں شروع ہو چکی ہیں۔ اب تازہ سبزیوں کی باری آنیوالی ہے۔ کسانوں، آڑھتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور عام دکاندار کو اب لٹیروں سے ہوشیار رہنا پڑیگا۔
٭…٭…٭
ملک بھر میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لئے مظاہرہ
یہ ایک دم باسی کڑھی میں ابال کیسے آ گیا۔یہ بیٹھے بٹھائے طلبہ کہاں سے ٹڈی دل کی طرح نمودار ہونے لگے۔ ضیاالحق کے دور میں لگنے والی پابندی اتنا عرصہ مؤثر طریقے سے برقرار رہی تو اسکی کچھ نہ کچھ وجہ تو ضرور ہو گی۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ یہاں کی تربیت کے بعد اچھے سیاستدان سامنے آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طلبہ سیاست میں مذہبی سخت گیر اور انتہائی لبرل قسم کے گروپوں کے ساتھ ساتھ قوم پرستی کے نام پر لسانی تنظیمیں بھی وجود میں آئیں۔ قوم پرستوں نے بھی صوبائیت کا منفی انداز اپنایا۔ جسکی وجہ سے طلبہ تنظیمیں اصل کام چھوڑ کرباہمی طور پر دست و گریباں ہو گئیں۔ اگر طلبہ تنظیمیں خلوص دل سے یونین سازی کے جمہوری عمل کو حزر جاں بناتیں تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔ ہمارے سکول او رکالج کے دور میں ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے کا تنازعہ پر تشدد ہنگاموں اور طلبہ کے زخمی ہونے تک محدود تھا۔ پھر جب اسلحہ جہاد کے نام پرقومیت کے نام پر صوبائیت اور لسانیت کے نام پر طلبہ کے ہاتھ آیا تو کئی جانیں لے بیٹھا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مناسب قانون سازی اور حدود وقیود کے ساتھ اسکی اجازت دے۔ طلبہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یونین سازی کے عمل کو باہمی چپقلش اور عناد سے پاک رکھیں۔ تاکہ جمہوریت کی یہ نرسریاں پھلیں پھولیں۔ مگر اس عمل سے تعلیمی ماحول خراب کرنے کی کسی ادارے کیخلاف منفی پراپیگنڈا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہمارا نظام تعلیم پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے یہ سارا یونین سازی کا بخار صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں ہی اٹھتا ہے۔ نجی کالجز اور یونیورسٹیوں میں اس عیاشی کی اجازت نہیں ہوتی۔