• news
  • image

دوست کون‘ دشمن کون؟

امریکا کی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے امریکا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کو چین اور پاکستان گیم چینجر قرار دے رہے ہیں لیکن اس سے صرف چینی مفادات کا تحفظ ہو گا، ان کا کہنا ہے کہ سی پیک پاکستان پر بوجھ بنے گا،چینی قرضوں کی شرائط سخت ہیں ، سی پیک امدادی منصوبہ نہیں ، پاکستان کیلئے قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہوں گی ، امریکا کے پاس اس سے بہتر اقتصادی ماڈل موجود ہے، امریکا کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے، بظاہر چینی قرضے طویل المدتی ہیں تاہم اسکے باوجود عمران خان کا اصلاحاتی ایجنڈا متاثر ہوگا، ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ان منصوبوں سے متعلق چین سے سخت سوالات پوچھنے چاہئیں۔
اس مؤقف میں کتنی حقیقت ہے کہ سی پیک سے چینی مفادات کو تو تحفظ حاصل ہوگا لیکن پاکستان پر بوجھ بنے گا، اس سوال کے علاوہ ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی ملک میں ساحل پر ایسی بندر گاہ کی تعمیر جس سے عالمی تجارت کو فروغ مل سکتا ہو کیا ایسی بندر گاہ اس ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے جہاں تعمیر کی جارہی ہو، اس کا تو دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سی پیک کی تعمیر سے پاکستان کی معیشت کو اس حد تک فائدہ پہنچ جائے کہ ہم امریکہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کے قابل ہوجائیں اور جی حضوری ترک کردیں۔ یوں تو اس وقت بھی وزیراعظم عمران خان نہ صرف وطن عزیز بلکہ وطن عزیز کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو بھی عالمی قوتوں کے دبائو سے آزاد کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ببانگِ دھل اس امر کا اعلان کردیا ہے کہ آئندہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ میں نہیں کودیگا اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ایسا اصولی فیصلہ ہے جس سے وطن عزیز کی نہ صرف خارجہ پالیسی آزاد ہوگی بلکہ اس سے ہماری معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ہم نے نہ صرف ستر ہزار انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا بلکہ دس ہزار فوجی افسر وجوان بھی اس پر قربان ہوگئے اور اس جانی نقصان کے علاوہ ہمیں بھاری مالی نقصان بھی ہوا جس کا تخمینہ ایک اندازے کے مطابق ایک سو ارب ڈالر ہے۔ اس نقصان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیں اپنی جنگ میں دھکیلتے وقت جو لالی پاپ دکھایا تھا کہ ہمیں کتنی مالی امداد دیگا وہ بھی پوری نہیں دی اور چونکہ جنگ میں ایک دفعہ شمولیت اختیار کرنا تو اپنے بس میں ہوتاہے لیکن پھر اس جنگ سے خود کو دور کرنا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا پھر جب تک دشمن حملے کرتا ہے اس وقت تک نہ صرف اپنا دفاع کرنا لازمی ہوجاتا ہے بلکہ دشمن کے دانت کھٹے کرنے اور اسکی پیش رفت کو روکنے کیلئے جارحانہ حملے بھی کرنا لازمی امر ہوجاتا ہے اور ہمارے ساتھ یہی ہوا کہ ہمیں امریکی جنگ لڑتے دیکھ کر یہاں جہادی تنظیمیں ہماری دشمن بن گئیں اور انہوں نے ہمارے مفادات کیخلاف حملے کرنا شروع کردئیے اور ہمیں نہ صرف اپنا دفاع کرنا پڑا بلکہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کیلئے آگے بڑھ کر جوابی حملے بھی نا گزیر ہوگئے جو ہم نے کئے اور ان حملوں میں ہمیں جتنا بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا امریکہ نے وعدے کے باوجود اس میں معمولی سی بھی مدد نہیں دی۔ یہ تو امریکی کردار ہے جو صرف دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہی سامنے نہیں آیا ۔ یاد رہے کہ جب پاکستان آزاد ہوا تو چونکہ بھارت اپنی لامذہب اور لادینی پالیسی کی بنا پر سوویت یونین کے زیادہ قریب تھا اس لئے اس وقت قائد ملت خان لیاقت علی خان سوویت یونین کے دورے کے بجائے امریکہ تشریف لے گئے، اس وقت ہم پر یہ خوف سوار تھا کہ بھارت سوویت یونین کی مدد سے ہمیں ہڑپ کرجائیگا حالانکہ یہ ہمارا وہم ہی تھا لیکن چونکہ اس وقت ہم نئے نئے آزاد ہوئے تھے اور ہمارے پاس کوئی باقاعدہ فوج بھی نہیں تھی نہ ہی وطن عزیز کے دفاع کیلئے ہمارے پاس ضروری ہتھیار موجود تھے اس لئے اس وقت کی حکومت کے پاس بھارتی ریشہ دوانیوں سے تحفظ کیلئے امریکہ کی جانب جھکنا وقتی ضرورت کے عین مطابق تھا لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ امریکہ نے ہر ضرورت کے وقت ہمیں بدترین دھوکہ ہی دیا۔ وہ خواہ 1965ء کی جنگ میں ہتھیاروں کی فراہمی ہو یا 1968ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے ہمارے دریائوں پر بھارتی تسلط تسلیم کرنا یا پھر 1971ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کی بندرگاہوں کی حفاظت کے لئے چھٹے بحری بیڑے کو متحرک کرنا۔ وہاں نہیں پہنچ پایا، غرض امریکہ نے ہمیں ہمیشہ ایسا دھوکہ دیا ۔
یہاں چین کی بھی مختصر سی تاریخ پر ہماری نظر ہونی چاہئے کہ ساٹھ کی دہائی میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے ساتھ دوستی کی بنیاد ڈالی پھر ذوالفقار علی بھٹو نے چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا، یہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیش بینی تھی کہ انہوں نے دور رسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا کہ مستقبل چین کا ہوگا، چین سے اپنے روابط مضبوط بنیادوں پر قائم کئے اور چین کی دوستی کو ہمالہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار دیا۔ چین نے بھی ہر مشکل وقت میں ہماری بھرپور مدد کی حتیٰ کہ جب چین اور بھارت ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے تو چین نے ہمیں دعوت دی کہ اس وقت بھارتی فوج چینی سرحدوں پر برسر پیکار ہے لہذا ہم کشمیر پر قبضہ کرلیں۔ اس وقت کے صدر محمد ایوب خان کے پاس کشمیر کو بھارتی شکنجے سے آزادی دلانے کا یہ سنہری موقع تھا لیکن اس وقت ہمیں امریکہ نے دھمکی دیتے ہوئے پیش قدمی سے روک دیا۔ بہرحال یہ چین اور امریکہ کی وہ مختصر سی تاریخ ہے جس سے ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں معقول مدد مل سکتی ہے کہ کس ملک سے تعلقات بڑھانے سے ہمیں نقصان کا اندیشہ ہے اور کس ملک سے تعلقات ہمارا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں، اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک کی تیاری کے بعد گوادر عالمی تجارت کا ایسا مرکز بن جائے گا جس سے نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ افغانستان، وسط ایشیائی ریاستیں اور ایران بھی تجارت کرے گا اور اپنا مال عالمی منڈیوں میں کم لاگت پر فراہم کرسکے گا کیونکہ گوادر سے عالمی منڈیوں تک رسائی آسان اور کم خرچ بالانشین کے مترادف ہوگی۔ لہٰذا اس ضمن میں یہ سوچنا کہ سی پیک کی تیاری سے چین کو زیادہ فائدہ اور پاکستان کو نقصان ہوگا کسی بھی طور درست نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ سی پیک کی تیاری سے پاکستان کے چین کے ساتھ مفادات وابستہ ہوجائیں گے جبکہ مالی ضروریات پوری کرنے کے باعث ہمیں امریکی مدد کی ضرورت نہیں رہے گی اور ہم امریکی چاپلوسوں کے گروہ سے باہر ہوجائیں گے اور اپنے فیصلے اپنی مرضی کے مطابق آزادی سے کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ایلس ویلز نے سی پیک کی شفافیت پر بھی سوال اٹھادیا اور اس پر کرپشن کا الزام عائد کیا۔ اْنکے بقول، ’’سی پیک کے اثرات پاکستان کی معیشت پر اس وقت پڑیں گے جب چار یا چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔" امریکی نمائندہ خصوصی کے مطابق سی پیک کے تحت ملنے والے قرضوں کی شرائط بھی نرم نہیں ہیں جب کہ چینی کمپنیاں اپنے مزدور اور خام مال پاکستان بھجوا رہی ہیں، ان کے بقول "سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں اور مزدور پاکستان آ رہے ہیں، حالانکہ پاکستان میں بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔" ایلس ویلز نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بظاہر یہ قرضے طویل المدتی ہیں، لیکن اسکے باوجود یہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کے اصلاحاتی ایجنڈے پر تلوار کی طرح لٹکتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے امریکا کے پاس بہتر ماڈل موجود ہے، اْنکے بقول ’’امریکا کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘
ہمیں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کے بیان پر غور کرنے سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ پاکستان امریکا کا روایتی حلیف رہا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ البتہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی اپنا دوست قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن امریکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بڑا مخالف ہے۔ اس سے قبل بھی امریکی حکام سی پیک کے حوالے سے پاکستان کو تنبیہ کرتے رہے ہیں۔چین بیلٹ اینڈ روڈ جیسے مستقبل ساز منصوبے کے تحت وسطی ایشیا سمیت دنیا کے لگ بھگ 66 ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑنے کے قابل ہوجائے گا۔اس منصوبے کے ایک حصے کے تحت جسے سی پیک کہا جاتا ہے، چین نے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رکھے ہیں، جس سے ظاہر ہے کہ پاکستان کو ہی فائدہ ہوگا ، ویسے بھی چین نے ہمیشہ پاکستان کو اقتصادی فائدہ پہنچانے کی ہی کوشش کی ہے جبکہ امریکہ نے ہمیشہ ہمیں عین اس وقت دھوکہ دیا جب ہم گرداب میں گھرے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ہمیں امریکی پراپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل اور دوست اور دشمن کا فیصلہ کرنا چاہئے اور ایسے عجلت میں کئے جانیوالے کسی بھی ایسے فیصلے سے بچنا چاہئے جس کے بعد ہمیں پچھتانے کا موقع بھی نہ مل سکے کیونکہ ہم پہلے ہی ایک جانب بھارت اور دوسری جانب افغانستان کی دشمنی کا شکار ہیں ایسے حساس وقت میں ہمیں چین جیسے مخلص دوست کی اشد ضرورت ہے لہٰذا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ہمیں سو بار اپنے فیصلے کے نتائج وعواقب پر غور کرنا ہوگا اور ماضی کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن