حکمرانوں کو سی پیک میں بگاڑ کیلئے ایجنٹ بنا کر بھیجا گیا، دسمبرانکا آخری مہینہ ہے: فضل الرحمن
کوئٹہ (بیورو رپورٹ) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دسمبر حکومت کا آخری مہینہ ہے۔ وزیراعظم تو کیا انکا ’’باپ‘‘ بھی استعفیٰ دیگا۔ موجودہ حکمران یورپ میں جا کر عیاشی کریں۔ حکومت کرنا بازاری لوگوں کا کام نہیں۔ حکومت کی ڈھٹائی کی وجہ سے چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالت میں گیا جس سے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی۔ ماضی میں سی پیک کو ناکام کرنے کے لئے بیرونی قوتوں نے ملک کی سیاسی قیادت کو دبائو میں لانے کے لئے انتشار پھیلایا۔ پانامہ سکینڈل بھی اسی سازش کا حصہ تھا۔ امریکہ کے غلط رویہ اور بیانات سے پاک چین دوستی کو دھچکا لگا ہے۔ نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ ڈاکٹروں کے مشورے سے ہوگا۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں پریس کانفر نس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری، صوبائی امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع، رکن قومی اسمبلی مولوی کمال الدین، اراکین صوبائی اسمبلی ملک سکندر ایڈووکیٹ، سید فضل آغا، اصغر علی ترین، صوبائی ترجمان دلاور کاکڑ، ضلع کوئٹہ کے امیر عبدالرحمن رفیق سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ملک کے بحرانوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ ملک تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ معیشت کی صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ تمام ادارے ناکام ، صنعتیں بند اور پیداواری صلاحیت جواب دے چکی ہے۔ کاروباری طبقہ اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کی سوچ رہا ہے۔ تاجر پریشان ہیں۔ جبکہ ادارے ختم کئے جارہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو اب تک بے روزگار کیا جاچکا ہے۔ عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے راشن، روٹی، سبزی، ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنے سے قاصر ہے۔ جہازوں میں کام کرنے والے عملے کی تمام مراعات کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ شپنگ کارپوریشن پاکستان بیٹھ چکی ہے جس کی وجہ سے ساحل ویران پڑے ہیں۔ ملک معاشی لحاظ سے بیٹھتا جارہا ہے۔ کیا ہم بھی سوویت یونین کی طرح ٹوٹنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ملک کا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب حکومت کی نااہلی ہے یا کوئی مخصوص ایجنڈا کہ ملک کو دیوالیہ کیا جارہا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خارجہ پالیسی میں مسلسل ناکام ہو رہا ہے۔ ہمارے قابل اعتماد دوست بھی ہمار ے ساتھ رہنے کو آمادہ نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین نقطہ تھا جسے آج دوسرے تیسرے درجے پر دھکیل کر معاملہ نمٹا دیا گیا ہے۔ سیاسی نظام غیر مستحکم ہے۔ لوگوں کو پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں رہا۔ آزادی مارچ تاریخ کاسب سے بڑا مظاہرہ تھا جس میں ہرطبقے اور جماعت نے شرکت کی۔ اس مظاہرے نے موجودہ نظام کو مسترد کردیا ہے۔ جائز طریقے سے بننے اور عوا م کی ترجمان پارلیمنٹ ہی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اقتدار پر قابض مافیا سے چھٹکارا حاصل کر کے ہی مستحکم سیاسی نظام کی طرف جا سکتے ہیں۔ اپوزیشن پر الزامات عائد کرنے والی حکومت خود مافیا ہے جس نے فوجی ادارے اور ملک کی جگ ہنسائی کروائی۔ تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہیں اور ہمارے مطالبے میں شریک ہیں۔ حکومتی وزراء صرف مضحکہ خیز باتیں کر سکتے ہیں۔ یہ معاملات خراب تو کر سکتے ہیں لیکن ٹھیک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ ملک میں فوری طور پر نیا الیکشن کروایا جائے اور نئی پالیمنٹ جو عوام کی ترجمان ہو 6ماہ میں آرمی چیف کی مد ت ملازمت سمیت دیگر اہم امور پر قانون سازی کرے۔ حکومت سے کسی قسم کا کوئی میثاق یا بات چیت نہیں ہوسکتی، نہ ہی حکومت اس قابل ہے کہ اس سے مذاکرات کئے جائیں۔ ماضی میں سنجیدہ سیاسی قیادت نے میثاق جمہوریت کیا جو آج بھی قائم ہے۔ بلوچستان حکومت کی پیش کش کو حقیر اور بے توقیری سمجھتا ہوں۔ امریکہ سی پیک سے متعلق بات کرنے سے قبل احتیاط برتے۔ پاکستان اپنے مفاد میں فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ امریکہ کا رویہ اور بیانات غلط ہیں۔ چین پاکستان کا 70سالہ دوست ہے جس سے ہمارے اقتصادی دوستی ہونے جارہی ہے اس بیان سے ہماری دوستی کو بھی دھچکا لگا ہے۔ ہم نے اقتدار پر قابض مافیا سے جان چھڑانی ہے۔ حکمران اقتدار چھوڑیں اور یورپ میں جا کر عیاشیاں کریں۔کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دھرنا تاریخی ایونٹ تھا، جو حالات پر اثر انداز ہوا۔ ہمارے حلیف ان حالات سے اگر فائدہ اٹھاتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ دعویٰ کیا کہ پانامہ بین الاقوامی دباؤ تھا جسے سیاسی قیادت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ امریکی بیان سے واضح ہو گیا پاناما ایک سازش تھی۔ موجودہ حکومت کو ایجنٹ بنا کر بھیجا گیا تا کہ سی پیک میں بگاڑ پیدا کرے۔ ادھرمولانا فضل الرحمن اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اتوار کو ایک ہی پرواز میں کراچی سے کوئٹہ پہنچے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران جب مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کی وزیراعلیٰ جام کمال خان سے پرواز میں بات چیت ہوئی تو انہوں نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے پروازوں میں بہت سے سیاسی لوگ ملتے ہیں ہر ایک سے بات چیت نہیں ہوتی۔