ایک میچ ہارتے ہیں تو دکھ دو ہارتے ہیں تو زیادہ دکھ ہوتا ہے!!!!!!!
جناب خوش ہیں ایک میچ اور ہار گئے ہیں، ہمارا جواب تھا جب ایک میچ ہارتے ہیں تو صرف دکھ ہوتا ہے دوسرا میچ ہارتے ہیں بہت دکھ ہوتا ہے اور جب مسلسل ہارتے چلے جائیں تو بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ ہمارے پاس تو بڑا اچھا عذر موجود ہے کہ پہلے کون سا آسٹریلیا میں ہم کامیاب ہوتے تھے۔ ناکامی کو چھپانے کے لیے ملبہ ماضی پر ڈالنا، ناتجربہ کاری کا بیان دینا یا پھر یہ کہہ دینا کہ پنک بال کے ساتھ کھیلنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ جائزہ لیا جائے تو ہمارے بلے بازوں نے خراب شاٹس کھیل کر وکٹیں ضائع کیں، باؤلرز نے خراب باؤلنگ کی اور میزبان بلے بازوں کو رنز بنانے کے آزادانہ مواقع فراہم کیے، کپتان موجود وسائل کا مناسب استعمال کرنے میں بھی ناکام رہے۔ سلیکشن میں پرفارمرز کو موقع دینے کے بجائے پسندیدہ کھلاڑیوں کو چنا جائے اور بعد مشکل کنڈیشنز یا ناتجربہ کاری کا عذر پیش کیا جائے تو بات بنتی نہیں ہے۔ ایسی کارکردگی کے بعد نہ تو احسان مانی کی تعریف کی جا سکتی ہے نا ہی وسیم خان کے فیصلوں کو درست کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مصباح الحق، انکے ساتھی کوچز، چیف سلیکٹر اور ان کی سلیکشن کمیٹی کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ اس ناکام دورے کے بعد ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے بھی کرکٹ بورڈ حکام کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
چند روز قبل وزیراعظم عمران خان کے معاون نعیم الحق نے قومی ٹیم کی کارکردگی پر ٹویٹ کرتے ہوئے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا ان کے ٹویٹ پر گزشتہ روز کا سپورٹس لائن تھا۔ اس کالم پر سپورٹس جرنلسٹ شاہ فیصل نے فیس بک پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ نعیم الحق کی رائے کی اہمیت ایک عام پاکستانی سے زیادہ نہیں ہے اور عظیم کھلاڑی وزیراعظم عمران خان کو ان کی رائے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ شاہ فیصل نے یہ بھی لکھا کہ وزیراعظم ہارون رشید جو کہ کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہیں پریزینٹیشن شروع کرنے کے پانچ منٹ بعد ہی خاموش کروا دیا تھا۔ شاہ فیصل کا اعتراض تھا کہ نعیم الحق کے ٹویٹ کو اتنی اہمیت نہیں ملنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعیم الحق ایک عام پاکستانی نہیں ہے وہ منتخب وزیر اعظم کے معاون اور قریبی دوست ہیں عام پاکستانی تو بہت ہیں جن کی رائے کی واقعی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آپ دیکھیں اسی دوران پاکستان کی ٹیم دوسرا ٹیسٹ میچ بھی ہار گئی اور میچ کے بعد گراؤنڈ میں دونوں ٹیموں میں سب سے ناکام رہنے والے پاکستانی بلے باز امام الحق کی خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھیں۔ ان کے چہرے کی خوشی بتا رہی تھی کہ آسٹریلیا کی فتح سے وہ بہت خوش ہیں۔ امام الحق کی ہنستے مسکراتے اس تصویر پر سوشل میڈیا صارفین نے خوب بھڑاس نکالی ہے۔ چونکہ ناکامی میں امام الحق کا کوئی قصور نہیں ہے انہیں تو صرف ایک ٹیسٹ میچ ملا تھا انہوں نے اسے پریکٹس میچ سمجھ کر کھیلا اور ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے۔ دو ٹیموں میں سے کسی ایک نے تو ہارنا تھا پاکستان ہارا ہے لیکن کرکٹ جیت گئی ہے اور ہنستے مسکراتے امام الحق کو آسٹریلیا کی یہ کامیابی مبارک ہو۔
قومی ٹیم کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ قومی ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار کرکٹ بورڈ ہے۔ کرکٹ بورڈ سے ان کی مراد احسان مانی کا کرکٹ بورڈ ہے اسے نجم سیٹھی یا شہریار خان کا کرکٹ بورڈ نہ سمجھا جائے نہ ہی ان کے اس بیان کو گھما پھرا کر پیش کیا جائے۔ چونکہ حکمراں جماعت کے حامیوں اور ان کے مخالفین کو ایسے مسائل کا سامنا رہتا ہے کہ وہ مختلف بیانات کو گھما پھرا کر پیش کرتے ہیں تو اصل بات کہیں دور چھپ جاتی ہے۔ اس لیے فواد چودھری کے اس بیان کو خالصتاً غیر سیاسی سمجھتے ہوئے کرکٹ سے محبت کرنے والے ایک پاکستانی کی آواز سمجھا جائے۔ نجم سیٹھی، شہریار خان، ذکا اشرف، اعجاز بٹ اور ان سے پہلے اس عہدے پر خدمات انجام دینے والوں کو بھی ایسے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ روایات کو دیکھا جائے تو احسان مانی بھی اسی دور سے گذر رہے ہیں۔ ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ناکامی میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران اپنے پیارے معاون نعیم الحق اور لاڈلے فواد چودھری کی رائے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ وزیراعظم اہمیت نہ بھی دیں لیکن ان بیانات کے بعد ایک بحث ضرور شروع ہوئی ہے اور یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ کہیں کوئی اور دوڑ بھی شروع ہو گئی ہے۔ یہ دوڑ عہدے کی بھی ہو سکتی ہے۔
بعض حلقے اسے سیاسی بیان بازی بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر بھی احسان مانی کی مخالفت موجود ہے اور وفاقی وزراء بورڈ چیئرمین کے فیصلوں سے ناخوش ہیں۔ محکمانہ کرکٹ کے خاتمے اور کرکٹرز کے بیروزگار ہونے کی وجہ سے عوامی جذبات کے پیش نظر بورڈ چیئرمین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ سینئر سپورٹس جرنلسٹ اور اینکر مرزا اقبال بیگ کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف قومی ٹیم کی ناکامی کرکٹ بورڈ حکام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ٹیم کی سلیکشن پر سنجیدہ سوالات اور خاصے تحفظات ہیں۔ ایک ہی محکمے کے کھلاڑی قومی ٹیم میں نظر آ رہے ہیں۔ چیف سلیکٹر و ہیڈ کوچ یس سر کہنے والے کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک ہی شخص کو دو عہدے دینے سے احتساب کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔ وقار یونس کریڈٹ لینے کے چکر میں کھلاڑیوں کو ڈیبیو کروا رہے ہیں۔ وسیم خان لمبے دورے پر آسٹریلیا میں موجود ہیں۔ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں۔ من پسند کرکٹرز کو منتخب کیا جا رہا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے معاملات جس غیر سنجیدہ انداز میں چلائے جا رہے ہیں اس سے ہر گذرتے دن کے ساتھ تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ افتخار احمد کو ہرفن مولا کہا گیا لیکن وہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنے میں ناکام رہے یہی صورتحال فاسٹ باؤلر عمران خان کی ہے۔ سب اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان ٹیم کی آسٹریلیا میں ناکامی کے بعد بورڈ حکام پر تنقید ہماری روایت کا حصہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی اس وقت یہ پی سی بی پر تنقید میں آگے آگے ہوتے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے حکومت میں آنے کے بعد بھی بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاستدان کرکٹ بورڈ پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ شہلا رضا کا نام ان میں نمایاں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ حکام کو چھپنے کے بجائے سامنے آ کر تنقید کا جواب بھی دینا چاہیے اور عوام کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ٹیم کی کارکردگی کا گراف کیوں گر رہا ہے۔ سرفراز احمد کو ذاتی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم سے باہر کیا گیا تھا کیا اب اظہر علی ناکام رہے تو کیا انہیں بھی کپتانی سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ ٹیم سے بھی ڈراپ کر دیا جائے گا۔ ملکی تاریخ کی سب سے مہنگی انتظامیہ کا کام صرف بھاری تنخواہوں پر آفیشلز کی تعیناتی نہیں ہے۔ کھیل کے میدان سے خراب کارکردگی کا جواب بھی انہوں نے دینا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی اہم شخصیات اگر کرکٹ بورڈ حکام پر تنقید کر رہی ہیں تو وہ یہ بھی ذ ہن میں رکھیں کہ اس بورڈ نے عوام کے منتخب نمائندوں کو کبھی اہمیت نہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی پی سی بلا بلا کر تھک گئی ہے لیکن کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان آج تک پیش نہیں ہوئے۔