قومی اسمبلی: پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر اپوزیشن، اختر مینگل، فاٹا ارکان کا احتجاج، واک آؤٹ
اسلام آباد(خصوصی نمائندہ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاج اور واک آئوٹ کے بعد حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام ہوگئی جس پر اجلاس آج جمعہ گیارہ بجے دن تک ملتوی کر دیاگیا ۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادی جماعت نے اسیر ارکان کے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے، مہنگائی اور بلوچستان میں چارخواتین کے اغواء کیخلاف سپیکر ڈائس پر دھرنا دیدیا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ دوسری جانب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزیر داخلہ سے خواتین کے اغواء کا نوٹس لینے اور آج جمعہ کو ایوان میں ان سے جواب طلب کر لیا ہے۔ اپوزیشن واضح کیا کہ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو اجلاس میں نہیںآئیں گے اور بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب سرداراختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کوگن پوائنٹ پر نہیں چلایا جا سکتا، اپنی عزت کی حفاظت کیلئے حکومتی حمایت سے دستبردار ہوسکتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے نکتہ اعتراض پر کہاکہ اسپیکر اس ایوان کو چلانے کے حوالے سے مکمل بااختیار ہیں، کارروائی کے سلسلے میں ہر فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں، اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروائیں۔ انہوں نے کہاکہ اسیر ارکان کو ایوان میں نہ لاکر متعلقہ حلقوں کے حق نمائندگی سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اسپیکر ایوان اور اس ارکان کے حقوق کے محافظ ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کی حکم عدولی کی جارہی ہے۔ پنجاب حکومت کو خواجہ سعد رفیق کو ایوان میں لانے کا کہا گیا تھا۔ وزارت داخلہ کا ایک سیکشن آفسر اپنے احکامات پر صوبائی حکومت سے عملدرآمد کروا سکتا ہے مگر حکومت کی طرف سے اسپیکر قومی اسمبلی کی قدرومنزلت ایک سیکشن افسر سے بھی کم کردی گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے پروڈکشن آرڈر جاری ہی نہیں کیے گئے جو جاری ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد نہ کرکے مسلسل پارلیمنٹ کی توہین کی جارہی ہے۔ عوامی مسائل زیر بحث آتے ہیں مگر حکومت ان پر توجہ نہیں دیتی۔10سالہ تاریخی مہنگائی ہے اور آج اس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اسپیکر کے فیصلوں کے حوالے سے ان کی توہین رکوانے، عزت کی بحالی، مہنگائی میں کمی کیلئے ہم کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے اور جب تک حکومت کوئی واضح اعلان نہیں کرے گی ہم کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ تمام ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ سب کو ایوان میں لایا جائے، بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل )کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہاکہ نواز شریف کے دور میں بلوچستان کو آتش فشاں میں تبدیل کردیا گیا، بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ پابند سلاسل کیا گیا، ہمارے بزرگوں کی میت کے تابوت اور کفن پر تالے لگا دئیے گئے اور آج کے کیسز پر بھی تالے لگائے جارہے ہیں۔ ہم سب نے آئین کی حلف داری اور پاسداری کا حلف اٹھایا ہے مگر آئین توڑنے والے کو تو ریڈ کارپٹ گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا۔ 29 نومبر آواران کے ایک گائوں میں چار خواتین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا۔ خواتین کا یہ اغواء ، بے حرمتی افسوس اور شرمناک عمل ہے ۔جب کل ہمارے بچوں کو اٹھایا جارہا تھا یہ خاموش تھے۔ جب ان کے بچوں کو اٹھایا جانے لگا ہم ہی بولے۔ بلوچستان سے اب مائوں، بہنوں کو اٹھایا جارہا ہے یہ خاموش ہیں کل کو یہ وقت ان پر بھی آسکتا ہے پھر کون آواز اٹھائے گا۔ اس طرح بلوچستان میں شاہراہ ترقی تعمیر نہیں ہوسکتی ، نفرت مزید بڑھے گی۔ انہوں نے کہاکہ اگر آئین توڑنے والے کو باہر جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے تو ان بے گناہ خواتین کو بھی رہا کیا جائے۔کوئی فیکٹ فائنڈنگ مشن نہیں گیااور جب ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو مجھے بھی اور شاہ زین بگٹی کو لے آتے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں خواتین کے باتھ رومز میں خفیہ کیمرے لگائے گئے۔ اکبر بگٹی شہید کے جنازے میں ورثاء کو شریک ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ، ایسے اتحاد اور پارلیمنٹ کا کیا فائدہ اگر ہماری عزت محفوظ نہیں ہوگی تو حکومتی حمایت سے دستبردا ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کو گن پوائنٹ پر نہیں چلایا جاسکتا۔ ایوب خان، ضیاء الحق ، پرویز مشرف اور کوئی بھی آمر ایسا نہ کرسکا۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی بلوجستان میں توپ اور بندوق نظر آرہی ہے اگر کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا جاسکتا تو کسی بلوچ کو بندوق کے زور پر پاکستانی نہیں بناسکتے۔ مساوی سلوک کریں۔ انہوں نے کہاکہ پروڈکشن آرڈر کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں میں ان کے احتجاج میں شامل ہوں۔ سردار اختر مینگل کی تقریر کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اسپیکر ڈائس پر احتجاجاً دھرنا دیدیا۔ عبدالقادر پٹیل نے کورم کی نشاندہی کردی ۔ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی کہ جن خواتین کا کہا جارہا ہے انہیں رہا کیا جائے ،سمن کیا جائے ، وزیر داخلہ نوٹس لیں، ایوان میں جواب دیں۔ بعد ازاں ایوان میں گنتی کروائی گئی تو 75ارکان موجود تھے جس کے بعد کارروائی آج جمعہ گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔