10 برس میں، شہباز شریف کے اثاثے، 70 سلمان 8 ہزار ، حمزہ کے کئی گنا بڑھے: معاون خصوصی احتساب
اسلام آباد (نا مہ نگار) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و وزارت داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے اٹھارہ سوالات کے جواب مانگ لئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں میں ان کے اپنے دور حکومت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ وزیراعلی آفس میں کرپشن کا کورکھ دھندا چلایا گیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مشیروں اور ذاتی ملازم کے ذریعے رقوم کی غیر قانونی طریقے سے منتقلی کی۔ وہ وفاقی وزیر برائے مواصلات و پوسٹل سروسز مراد سعید کے ہمراہ پریس کانفرنس کررہے تھے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب نے2018ء میں تحقیقات شروع کیں جس میں یہ بات سامنے آئی کہ شہباز شریف، ان کی اہلیہ نصرت شہباز، حمزہ شہباز اور خاندان کے دیگر افراد کے اثاثوں میں گزشتہ دور اقتدار میں اضافہ ہوا، سلمان شہباز کے 8 ہزار گنا بڑھے، حمزہ کے اثاثوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا۔ اسی تناسب سے خاندان کے دیگر افراد کے اثاثے بھی بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ جعلی ٹی ٹیز لگا کر باہر سے پیسہ اپنے اکائونٹس میں بھیجا اور کہا کہ ہمارے ڈکلیئرڈ اثاثے ہیں، منظور پاپڑ والا، قدیر کڑاہی والا اور مشتاق چینی جیسے لوگوں کے ذریعے ٹی ٹیز کے نام پر رقوم منتقل کی گئیں، انہوں نے منی لانڈرنگ سے حاصل کی گئی رقوم اپنے مختلف کاروباروں کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیں، یہ کاروبار اتفاق کاروبار سے الگ ہیں۔ نیب تفتیش کے دوران ان کی منی لانڈرنگ سے متعلق نئے انکشافات سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ ڈیلی میل کے خلاف کارروائی کریں گے تاہم ابھی تک انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ میں انہیں اس کے لئے قانونی اور مالی تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کاغذی کمپنیوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا سب کچھ قانونی ہے، جی این سی نامی کمپنی کے تین ڈائریکٹرز نثار احمد گل، ملک علی احمد اور طاہر نقوی ہیں، ان میں سے دو ان کے سیاسی مشیر اور ایک ذاتی ملازم ہے۔ نثار احمد گل نیب کی تحویل میں ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ جی این سی ایک کاغذی کمپنی تھی جسے سلمان شہباز چلاتے تھے، یہ کمپنی منی لانڈرنگ کے لئے بنائی گئی تھی، جعلی سیلز سے ثابت کیا گیا کہ اس کمپنی نے 2015ء سے 2017 ء کے دوران 7 ارب کا بزنس کیا۔ معاون خصوصی نے کہاکہ منصور انور اور شعیب قمر ان کے کیش بوائز تھے، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے یہ گورکھ دھندا چلایا جا رہا تھا۔ ان میں سے ایک کیش بوائے 1.25 ارب روپے کی رقم خادم اعلیٰ کے اکائونٹس میں جمع کراتا ہے اور وہ یہ رقم اپنی اہلیہ تہمینہ درانی کے حوالے کرتے ہیں، دونوں کیش بوائز بھی گرفتار ہیں۔ ان کیش بوائز نے سلمان شہباز کے اکائونٹس میں بھی نقد رقوم جمع کرائیں۔ 96 ایچ اور 55 کے ماڈل ٹائون سے سلمان شہباز اس لین دین کو کنٹرول کررہے تھے۔ وہ کیش بوائز سے وصول کی گئی رقوم مختلف کمپنیوں کے اکائونٹس میں جو جعلی سیلز کی صورت میں جمع کراتے تھے ۔ ان میں سے بعض رقوم کی ٹی ٹیز کے لئے استعمال کیا گیا۔200 سے زائد ٹی ٹیز کے ذریعے رقوم بیرون ملک منتقل کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ کاغذی کمپنیوں کے ذریعے کاغذی سیلزظاہر کی گئیں۔ ان لوگوں نے کمپنیوں سے متعلق جعلی کاغذات پیش کیے ہیں۔ معاون خصوصی نے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے اس معاملے سے متعلق 18 سوالات پوچھے ہیں اور کہا ہے کہ کیا یہ دو سیاسی مشیر اور ذاتی ملازم ان کے فرنٹ مین نہیں تھے۔ کیا انہوں نے رقوم کی منتقلی میں کردار ادا نہیں کیا اور کروڑوں روپے جی این سی سے نکال کر ان کے اکائونٹ میں منتقل نہیں کئے، کیش بوائز کے ذریعے منتقل کی گئی رقوم ان کے ذاتی اخراجات پر خرچ نہیں کی گئیں، کیا وہ جی این سی کے ڈائریکٹرز کو وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں تعینات کرکے کالے دھن جمع کرنے کی سرپرستی تو نہیں کرتے رہے۔ دبئی میں بیگم نصرت شہباز اور سلمان شہباز کی ٹی ٹیز کے لئے استعمال ہونے والی کمپنیاں وہی تو نہیں ہیں جنہوں نے آصف علی زرداری کے لئے منی لانڈرنگ کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹیز کے ذریعے رقوم کی منتقلی جرم نہیں ہے لیکن ٹی ٹیز کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنا جرم ہے۔شہزاد اکبر کی طرف سے جو آٹھ سوال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ کیا نثار احمد گل وزیر اعلی کے ڈائریکٹر برائے سیاسی امور اور ملک علی احمد وزیر اعلی کے پالیسی ساز کے عہدوں پر تعینات نہیں تھے؟ کیا نثار احمد گل اور علی احمد آپ کے فرنٹ مین نہیں تھے؟ کیا یہ دونوں کاغذی کمپنی گڈ نیچر کے مالک نہیں تھے؟ کیا نثار احمد گل نے اپنے بینک اکانٹ کے اوپنگ فارم میں اپنا عہدہ مشیر برائے سیاسی امور وزیر اعلی پنجاب اور پتہ چیف منسٹر آفس نہیں لکھوایا تھا؟ کیا آپ کا ڈائریکٹر سیاسی امور نثار احمد کل آپ کے صاحبزادے سلیمان شریف کے ساتھ مختلف دوروں پر لندن، دبئی اور قطر نہیں گیا تھا؟ کیا انہوں نے بھاری رقم آپ کے ذاتی اکانٹ میں منتقل نہیں کیے تھے؟ کیا آپ نے ان پیسوں سے تہمینہ درانی شریف کے لیے وسپرنگ پائن کے دو ویلاز نہیں خریدے تھے؟ کیا آپ کے کیش بوائیز مسرور انور اور شعیب قمر نے جی ایم سی سے اربوں نکال کر آپ کے دونوں حمزہ اور سلیمان کے اکاونٹ میں منتقل نہیں کیے تھے؟ نثار گل ان کے اکاونٹس سے آپ کے اور آپ کے بیٹوں کو یہ رقم منتقل نہیں کی گئی تھی؟ کیا جی ایم سی سے اربوں کیش کی صورت میں نکال کر آپ اور آپ کے خاندان کے اندورنی اور بیرونی اخراجات کے لیے استعمال نہیں کیے گئے؟ کیا جی ایم سی نے بالواسطہ آپ کے چپڑاسی ملک مقصود کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے جمع نہیں کرائے تھے؟ کیا جی ایم سی کے مالکان کو وزیراعلی کے آفس میں اعلی عہدوں پر فائز کرکے آپ براہ راست کالا دھن کو سفید کرنے کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے سرپرستی نہیں کرتے تھے؟ کیا آپ کی رہائش گاہ 56 ایچ ماڈل ٹائون میں کمیشن رقوم وصول ہوتی نہیں رہی؟ کیا ان رقوم کو شریف گروپ کے دفتر واقع 55 کے ماڈل ٹائون میں منتقل کرنے کے لیے آپ کی ذاتی گاڑی استعمال نہیں ہوتی رہی؟ کیا دبئی کی چار کمپنیوں جو بیگم نصرت شہباز اور سلیمان شہباز کے اکاونٹ بذریعہ ٹی ٹی رقوم منتقل کرتی رہی؟ کیا یہ وہی کمپنیاں نہیں ہیں جو آصف زرداری اور اومنی گروپ کے لیے بھی منی لانڈرنگ کرتی رہی؟ کیا ڈیفٹ کے دیے ہوئے پیسے کی آپ کے داماد علی عمران نے بذریعہ نوید اکرام لوٹ مار نہیں کی؟ کیا آپ ہمیں بتانا پسند کریں گے کہ پاکستان کی عزت بحال کرنے کے لیے لندن کی عدالتوں میں ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روس اور میرے خلاف حرجانے کا دعوی دائر کریں گے؟
اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری احسن اقبال نے کہا کہ حکومت سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔گرفتار ارکان کو اسمبلی میں شرکت سے روکا جا رہا ہے، ہم اس وقت تک اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جب تک سپیکر کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا، ان ہتھکنڈوں سے حکومت نہیں چل سکتی، اس حکومت نے ہمارے منصوبے بند کر دیئے، انہوں نے یہ بات مسلم لیگی رہنما عطاء اللہ تارڑ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہون نے کہا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کا ماتحت ادارہ نیب کو مطلو ب افراد کو اٹھانے میں ملوث ہے، چار سے پانچ دن حبس بے جا میں رکھنے اور بدترین سلوک کرنے کے بعد ان پر دبائو ڈالاجاتا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں اور پھر وہ افراد نیب کے حوالے کئے جاتے ہیں، وفاقی حکومت نیب کی گرفتاریوں میں سہولت کار ہے ، یہ حکومت نہیں کامیڈی تھیٹر ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کو ڈر تھا کہ اپوزیشن شور کرے گی انہوں نے توجہ ہٹانے کے لیئے نام نہاد احتساب سیل کی پریس کانفرنس کردی ، جس میں جھوٹے الزامات لگائے گئے، مسلم لیگ(ن) کے ہر رہنما جس کا ٹرائل ہو رہا ہے وہ کہہ رہے ہمارا اوپن ٹرائل کیجیئے، لیکن حکومت کو ہمت نہیں کہ اوپن ٹرائل کر سکے، یہ عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے، یہ صرف گالی گلوچ پر زندہ ہیں، احسن اقبال نے کہا کہ پانچ سال آپ فارن فنڈنگ کیس سے کیوں بھاگتے رہے ہیں، ن لیگ کا کوئی ایسا اکائونٹ نہیں جو حساب کے لئے پیش نہ کیا گیا ہو، آپ کی چوری پکڑی گئی ہے، آپ نے اپوزیشن کی جھوٹے الزامات پر کردار کشی کی ہے ، ہماری جتنی انکوائریاں ہو رہی ہیں وہ اوپن کی جائیں، پی ٹی آئی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا، میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج عمران خان پوری معاشی ٹیم کو بٹھا لیں گے اور انہیں مرغا بنایا ہو گا۔ شیخ رشید نے جھوٹے الزامات لگائے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے حوالے سے جو تاخیر ہوئی اس کی ذمہ داری وزیر اعظم پر ہے، ان کی نیت میں کچھ جھوٹ تھا، وہ سازش کے تحت الیکشن کمیشن کو غیرفعال کرنا چاہتے تھے تاکہ فارن فنڈنگ کیس سے بچ سکیں، حکومت ہٹ دھرمی نہ کرے۔ احسن اقبال نے شہزاد اکبر کی نیوز کانفرنس پر جواب میں کہا اپوزیشن لیڈر شہبازشریف پر جھوٹے الزامات لگائے گئے لگتا ہے کہ یہ حکومت نہیں کوئی مزاحیہ تھیٹر ہے۔ حکومت سپریم کورٹ میں کر بھیگی بلی بن جاتی ہے۔ عمران نیازی کے پاس جھوٹے الزامات کے سوا کوئی چیز نہیں۔