• news

وزیراعظم نے اتحادیوں سے تعلقات مضبوط کرنے کیلئے 4 رکنی کمیٹی بنا دی

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/ نیشن رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے حکمران اتحاد کو مضبوط کرنے کیلئے رابطوں میں تیزی لانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تاکہ حکومت بلا رکاوٹ کام کر سکے۔ وزیراعظم نے اہم اتحادیوں سے ملاقاتوں کی غرض سے پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 4 رکنی کمیٹی بھی بنا دی ہے۔ عمران خان اس حوالے سے گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے رہنماؤں سے ابتدائی ملاقات کر چکے ہیں۔ رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم (پی)، جی ڈی اے، مسلم لیگ (ق) اور بی این پی مینگل کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کریگی۔ رابطہ کمیٹی، جی ڈی اے اور دیگر اتحادی پارٹیوں کے رہنماؤں میں اگلے ہفتے ملاقاتوں کا امکان ہے۔ ملاقاتوں کا مقصد یہ بھی ہے کہ حکومت اپنے اتحادیوں کے مختلف معاملات کے حوالے سے تحفظات اور مطالبات سے آگاہ رہے۔ ذرائع کے مطابق اس بات کا فیصلہ سردار اختر مینگل کے 4 خواتین کی گرفتاری کے بعد حکومت پر برسنے سے ہوا۔ کچھ ذرائع نے بتایا کہ اس اقدام کا مقصد ان کا ’’نیا پاکستان‘‘ کے بارے میں اپنے ویژن کو آگے بڑھانا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن پارٹیوں کے ذرائع کے مطابق ان کوششوں کی وجہ سپریم کورٹ کا گزشتہ ماہ کا فیصلہ ہے۔ حکومتی وفد میں پرویز خٹک‘ جہانگیر ترین‘ قاسم سوری اور ارباب شہزاد شامل ہیں۔ بی این پی کے راہنما اختر مینگل کہہ چکے ہیں کہ ان سے ملاقات سے قبل وعدوں پر عمل کی رپورٹ دی جائے۔

اسلام آباد (این این آئی+ نوائے وقت نیوز) حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے حکومت کو مزید مہلت دینے کا ٹائم گزر چکا ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا حکومت والے مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو رزلٹ کے ساتھ آئیں کیونکہ حکومت کو مزید وقت دینے کا ٹائم گزر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو خوش کرنے کیلئے ترمیم ہو سکتی تو ہمارے نکات پر کیوں نہیں۔ حکومت نے ترمیم کیلئے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا۔ سربراہ بی این پی نے کہا کہ حکومت پہلے ترمیم پر حمایت لینے کیلئے ہمیں قائل کرے۔ پارٹی فیصلہ کرے تو نشستوں سے استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ اتحاد پر فیصلے کیلئے پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے،وفاقی حکومت بلوچستان کے حوالے سے اہم فیصلوں میں اتحاد کے طور پر اعتماد میں نہیں لیتی، معاہدے میں سرفہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے ،حکمرانوں کو بلوچستان کے حوالے سے نیت صاف رکھنا ہوگی، صرف وعدہ اور یقین دہانی سے بلوچستان کے مسئلے حل نہیں ہوں گے،سی پیک کے حوالے سے وعدوں پر پیش رفت نہیں۔ اہم فیصلوں میں اتحاد کے طور پر اعتماد میں نہیں لیتی۔سربراہ بی این پی مینگل نے بلوچستان میں خواتین سے اسلحہ برآمد کرنے کے حوالے سے پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں بتایا کہ یہ واقعہ 29 نومبر کو ضلع آواران میں پیش آیا۔ حکومت اتحاد میں شمولیت کے لیے ہوئے معاہدے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے جو 6 نکات دیے تھے اس کے علاوہ 9 نکات تھے، اس میں سیاسی معاملات بھی تھے اور بلوچستان کی ترقی کے معاملات بھی تھے۔انہوںنے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور ہم چاہتے تھے کہ سیاسی مذاکرات سے یہ حل ہو کیونکہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ نہ ہی دہشت گرد کی بندوق سے حل ہوگا اور نہ ہی سرکار کی توپ سے حل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو نکات دئیے تھے ان میں سرفہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا کہ اگر وہ زندہ ہیں تو ان کو بازیاب کروایا جائے، اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں اور آپ کے پاس ثبوت ہیں تو عدالتیں آپ کی ہیں وہاں پیش کریں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ صرف تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہاں پر جو سیاسی حکومت یا غیر سیاسی حکومت آئی اس نے بلوچستان کو اہمیت نہیں دی، شاید بلوچستان کی پارلیمنٹ میں اتنی حیثیت نہیں ہے کہ اس کو وہ اہمیت دی جائے اور اگر تعداد میں اتنی حیثیت ہوتی تو شاید بلوچستان میں پانچواں آپریشن نہ کیا جاتا، نہ ہی بلوچستان کو اس طرح نظر انداز کیا جاتا اور نہ ہی بلوچستان اس طرح پسماندہ ہوتا۔ پارلیمنٹ میں صورت حال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بحث تو ہم کہیں بھی بیٹھ کر سکتے ہیں لیکن سینیٹ کے پاس کیا وہ اختیارات ہے کہ وہ حکومت کو تبدیل بھی کرسکے یا سینیٹ کے پاس وہ اختیارات ہیں، سینیٹ کے پاس ابھی تو مالی اختیارات بھی نہیں ہیں۔ سینیٹ میں تعداد کے حوالے سے تو برابر ہیں لیکن اس کے اختیارات تو محدود ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو بلوچستان کے حوالے سے نیت صاف رکھنا ہوگی، صرف وعدہ اور یقین دہانی سے بلوچستان کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ترقیاتی کاموں کے حوالے سے معاہدے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ڈیم، روڑ، انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے، پورے پاکستان میں جو گیس سوئی کے نام سے جانی جاتی ہے وہ ابھی تک ڈیرہ بگٹی کے کئی علاقوں میں نہیں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن