وکلا کا دھاوا: پی آئی سی میدان جنگ بنا رہا، ایمرجنسی، وارڈز خالی، فیاض الحسن پر تشدد، رینجرز طلب
لاہور (نامہ نگار + اپنے نامہ نگار سے + وقائع نگار خصوصی) وکلاء ساتھیوں پر ڈاکٹروں کے تشدد کے خلاف وکیلوں نے احتجاج کرتے ہوئے جیل روڈ پر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا۔ ایمرجنسی کا گیٹ وشیشے توڑے اور پتھراؤ کے علاوہ متعدد گاڑیوںکی توڑ پھوڑ کی۔ پولیس وین کو آگ لگا دی اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کیلئے آنسو گیس‘ واٹر کینن گنز کے علاوہ شدید لاٹھی چارج کیا۔ جس سے علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ پولیس ڈھائی سے 3 گھنٹے خاموش رہی پھر کارروائی شروع کی۔ جب کہ ڈاکٹر بھی وکلاء پر پتھراؤ اور نعرے بازی کرتے رہے جس سے متعدد افسراد زخمی ہو گئے۔ وکلاء نے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور صوبائی وزیر یاسمین راشد کو ہسپتال میں داخل نہ ہونے دیا جبکہ اس صورتحال سے ہسپتال میں مریضوں اور ان کے لواحقین میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ہنگامہ آرائی کے باعث قربی مارکیٹیں بند ہو گئیں۔ پولیس نے درجنوں وکلاء کو گرفتار کر لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی آئی سی میں تین ہفتے قبل ڈاکٹروں و عملے کی جانب سے وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ جس پر وکلاء برادری سراپا احتجاج تھی۔ گزشتہ رزو سینکڑوں وکلاء نے پی آئی سی کے باہر جیل روڈ پر احتجاج کیا اور ہسپتال کے اندر گھس گئے۔ وکلاء نے ہسپتال میں کھڑی متعدد گاڑیوں کے شیشے توڑ دیئے اور ہسپتال کی ایمرجنسی کا داخلی شیشے کا دروازہ بھی توڑ دیا اور اندر داخل ہو گئے۔ وکلاء نے اس موقع پر شدید نعرے بازی اور گالی گلوچ کیا جس سے ہسپتال میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے وکلاء کو ہسپتال سے باہر نکالنے کیلئے لاٹھی چارج کیا تو وکلاء نے ہسپتال کے باہر کھڑی پولیس وین کو آ گ لگا دی جس سے سرکاری وین جل کر مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ پولیس اور وکلاء میں تصادم ہو گیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کے علاوہ وکلاء کو ہٹانے کے لئے واٹر گینن گنز کے علاوہ آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی۔ وکلاء نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس دوران ڈاکٹر پی آئی سی اور سروسز ہسپتال کی چھت پر اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے وکلاء پر پتھراؤ کیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ علاقہ کئی گھنٹے میدان جنگ بنا رہا۔ سی سی پی او لاہور و دیگر پولیس حکام بھی موقع پر پہنچ گئے۔ وکلاء و ڈاکٹروں سے مذاکرات کرنے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان موقع پر پہنچے تو وکلاء نے انہیں بالوں اور منہ سے پکڑ کر کھینچا اور انہیں آگے جانے سے روک دیا۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد وہاں پہنچیں اور وکلاء نے انہیں ہسپتال کے اندر داخل نہ ہونے دیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وزیر صحت ہسپتال میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ اس موقع پر بعض مسلح وکلاء پسٹل سے ہوائی فائرنگ بھی کرتے نظر آئے۔ پولیس اہلکار مشتعل وکلاء کو پکڑ کر وین میں بند کرتے رہے۔ پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین خواتین‘ وکلاء سمیت درجنوں وکلاء کو گرفتار کر لیا۔ حالات کنٹرول کرنے کے لئے رینجرز اہلکار بھی موقع پر پہنچ گئے۔ پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و حکومتی وزراء وکلاء اور ڈاکٹرز نمائندوں سے مذاکرات کی کوششیں کرتے رہے۔ اس صورتحال میں مریض اور ان کے ورثاء انتہائی پریشان حال اور بے بس دکھائی دیئے اور مظاہرین کو کوستے رہے۔ علاوہ ازیں جیل روڈ کو ٹریفک کے لئے مکمل بند کر دیا گیا۔ جس سے یہاں ٹریفک کا بدترین نظام جام ہو گیا اور لوگ گھنٹوں جام ٹریفک میں پھنسے رہے۔ وکلاء ایم ایس آفس کے باہر پتھراؤ کرتے رہے جب کہ پولیس بے بس نظر آئی۔وکلاء نے صحافیوں کو بھی زدو کوب کیا۔موبائل فونز اور کیمرے چھین لیے۔پی آئی سی ایمرجنسی کی چھت پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ وکلا کے آتے ہی آپریشن تھیٹرمیں موجود عملہ آپریشن چھوڑ کر بھاگ گیا۔وکلاء نے پی آئی سی میں شدید نعرے بازی کی اور تشدد کرنے والے ڈاکٹرز کو ڈھونڈتے رہے۔ وکلا نے کہا کہ ڈاکٹر عرفان کو ہمارے حوالے کیاجائے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹرز نے چندروز قبل وکلا پر تشدد کے بعد اپنی تنظیموں کے اجلاس منعقد کئے اور وکلا ء کیخلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں، وکلا اور انکی فیملی کا علاج نہ کرنے کا کہا گیا۔ ایک اجلاس میں ڈاکٹرز کی جانب سے وکلاء سے معافی مانگنے کی اطلاعات بھی تھیں۔ پنجاب بھر کے سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم گرینڈ ہیلتھ الائنس نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ملازمین کے خلاف جھگڑے کے الزام میں درج کئے گئے مقدمہ میں شامل دہشت گردی کی دفعات ختم ہونے پر ملازمین کو مبارک باد پیش کی۔ اور کہا ہے کہ ملازمین کی جانب سے وکلاء سے معذرت کا اقدام قابل تحسین ہے جس کا گرینڈ ہیلتھ الائنس خیر مقدم کرتا ہے۔ الائنس کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں وکلاء کی فیملیز کا علاج نہ تو پہلے رکا تھا اور نہ اب رکے گا۔ ہنگامے کے دوران صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان بھی تشدد کی زد میں آ گئے۔ پی آئی سی کے باہر صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان پر تشدد کیاگیا ہے۔ وکلاء نے فیاض الحسن چوہان کو بالوں سے پکڑ لیا اور نوچنے کی کوشش کی۔ فیاض الحسن چوہان نے کہاکہ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کیخلاف کارروائی ہوگی۔ فیاض الحسن چوہان وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر کشیدگی کم کرنے کیلئے موقع پر پہنچے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر فائرنگ ہوئی‘ اغواء کی کوشش کی گئی۔ مجھ پر تشدد کرنیوالوں میں ن لیگ کا ایک کارکن ہے۔ وکلا جب گیٹ توڑ کر پی آئی سی میں داخل ہوئے تو پی آئی سی کی عمارت پر موجود نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے وکلا پر اینٹیں اور پتھر پھینکنے شروع کر دئیے۔ وکلا کی آمد کا سن کر ڈاکٹرز اور دیگر عملہ نے ہاکیاں ، ڈنڈے، لاٹھیاں ، کرکٹ بیٹ وغیرہ پکڑ کر مورچہ سنبھال لیا۔ وکلا اور ڈاکٹرز نے ایک دوسرے پر پتھرائو کیا۔ ایک وکیل بھاگتے ہوئے گر گیا اور ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف نے اس پر ڈنڈے سوٹے برسانا شروع کر دئیے جس سے وہ ادھ مواء ہو گیا۔ پولیس اہلکاروں نے مضروب وکیل کوبچایا۔جائے وقوعہ پر موجود وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے ایک دوسرے پر تصادم میں پہل کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔پولیس نے بعد ازاں وکلاء پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ہسپتال کے اندر موجود ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وکلا مختلف اطراف سے ہسپتال میں داخل ہوئے اور انھوں نے پہلی منزل پر موجود ایمرجنسی، آئی سی یو اور سی سی یو سمیت مختلف مقامات پر توڑ پھوڑ کی اور مریضوں کے لواحقین سے ہاتھا پائی بھی کی۔ یہ صورتحال دن ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی۔دوسری طرف احتجاج کرنے والے وکلا نے جی پی او چوک بند کر دیا جس سے ارد گرد کے علاقوں میں ٹریفک مسلسل جام ہو گیا۔ پولیس نے جیل روڈ اور مال روڈ کو بند کر دیا ۔رضیہ نامی وکیل نے بتایا کہ 36 وکلا کے سر پھٹے ہیں اور لوہے کے راڈ سے خاتون وکیل کو مارا گیا۔ 15 روز قبل ہونے والے وکلا ڈاکٹرز جھگڑے کے بعد معاملہ حل نہ ہونے پر دونوں طرف سے لاوا پکتا رہا۔دونوں طرف سے اجلاس ہوتے رہے ۔ ایک ویڈیو میں ڈاکٹرز اجلاس کے دوران وکلا کی نقل اتاری گئی۔ وکلا نے صحافیوں کو احتجاج کی فوٹیج بنانے سے روک دیا۔ آئی جی پنجاب اور وائی ڈی اے کے خلاف نعرے بازی کی۔ صدر لاہور ہائیکورٹ بار چوہدری حفیظ الرحمن نے کہا کہ آج کا دن انتہائی افسوسناک ہے۔ہمارے وکلاء پر تشدد قابلِ مذمت اور ناقابل قبول ہے۔صدر لاہور ہائیکورٹ بار چوہدری حفیظ الرحمن نے مطالبہ کیا کہ ویڈیو چلانے والے ڈاکٹر عرفان کو فوری گرفتار کیا جائے۔ وکلاء پر تشدد کرنے والوں کیخلاف فوری کارروائی کی جائے۔صدر لاہور ہائیکورٹ بار چوہدری حفیظ الرحمٰن، سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار فیاض رانجھا ودیگر عہدیداران سمیت نائب صدر سپریم کورٹ بار چوہدری غلام مرتضیٰ بھی وکلاء احتجاج میں شریک ہوئے۔ وکلاء نے آج لاہور ہائیکورٹ میں ہڑتال کا اعلان کردیا۔ صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حفیظ الرحمنٰ چودھری نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وکلاء کے توڑ پھوڑ کی مذمت کرتا ہوں۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ ہمیں انتہائی افسوس اور شرمندگی ہے۔ وکلاء سول کورٹ سے گئے کسی نے نہیں روکا۔ بار کونسل وکلاء کیخلاف کارروائی کرے گی۔ کچھ تشدد پسند لوگ وکلاء کے بھیس میں آئے تھے۔ تشدد کرنے والے وکیل نہیں کسی پارٹی کے رکن ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہیں اس سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ کی عمارتوں کی چھتوں پر لاہور پولیس کے ماہر سنائپر تعینات کر دیئے گئے ہیں جبکہ عدالت عالیہ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات پولیس نفری میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس نے ڈاکٹر یاسمین راشد کا گھیراو کر لیا انہوں نے صوبائی وزیر صحت سے استعفے کا مطالبہ کیا یاسمین راشد نے کہا ہے کہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔ پنجاب کے اہم مقامات پر رینجرز تعینات کرنے کی منظوری دیدی گئی گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پر رینجرز تعینات کر دیئے گئے محکمہ داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ ممکنہ واقعہ کے خدشات کے پیش نظر رینجرز تعینات کی رینجرز کی خدمات تین ماہ کیلئے لی گئی ہے۔ صوبائی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ شہر کے اہم مقامات پر رینجرز تعینات کر دی گئی ہے دس پلاٹون اور دو کمپنیز ریزرو کے طور پر رکھی جائیں گی ایک پلاٹون پنجاب اسمبلی ایک پلاٹون جی پی او چوک کے مال روڈ پر ہوئی ایک پلاٹوں سول سیکرٹریٹ اور ایک ایوان عدل میں موجود ہوگی ایک پلاٹون سپریم کورٹ رجسٹری، ایک پلاٹون لاہور ہائی کورٹ پر ہوئی ایک پلاٹون آئی جی آفس ایک پلاٹون پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر ہو گی رینجرز کی تعیناتی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1947ء کی دفعہ4 (2) اور دفعہ 5 (میدان جنگ) تحت کی گئی۔
لاہور، اسلام آباد (نیوز رپورٹر، نمائندہ خصوصی، خصوصی رپورٹر) صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد نے 3 مریضوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر دی۔ ہیلتھ الائنس کے مطابق مرنے والے 6 ہیں۔ پی آئی سی ہسپتال انتظامیہ نے دعوی کیا ہے کہ ڈاکٹر کی غیر موجودگی اور علاج نہ ملنے کی وجہ سے 70 سالہ گلشن بی بی آئی سی یو میں دم توڑ گئیں۔ مشتعل وکلا کی بڑی تعداد نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا۔ ہاتھوں میں ڈنڈے اور سوٹے تھامے وکلا کی بڑی تعداد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی داخل ہوئی اور ایمرجنسی کا دروازہ توڑ دیا۔ اس دوران ڈاکٹر اور نرسز ایک مریضہ کا علاج چھوڑ کر چلے گئے، علاج رکنے کے سبب بزرگ خاتون جاں بحق ہو گئی۔ گلشن بی بی ہسپتال میں زیرعلاج تھی۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی، ڈاکٹرز پر تشدد، گاڑیوں کو توڑنے، علاج معالجہ کوزبردستی روکنے اور ماحول تباہ کرنے والے مشتعل وکلاء کے خلاف سخت ایکشن لیاجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ڈاکٹرزکے ساتھ کھڑے ہونے اور مشتعل وکلاء کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتعل وکلاء نے پی آئی سی میں زبردستی گھس کر ڈاکٹرز پر تشددکیا، گاڑیاں توڑیں اور علاج معالجہ کو زبردستی روک دیا۔ ہم کسی کوہسپتال میں جاری علاج معالجہ یا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم تشدد کا نشانہ بننے والے تمام ڈاکٹرزکے ساتھ کھڑے ہیں اور ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ گورنر پنجاب نے بھی پی آئی سی واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کی مذمت کی ہے۔ وکلاء اور ڈاکٹر برادری سے اپیل ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے صلح صفائی کی طرف رجوع کریں۔ حکومت اس معاملے کو سلجھانے کے لیے فوری اقدامات کر رہی ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال کو مریضوں سے 80 فیصد خالی کروا لیا گیا۔ ایمرجنسی اور وارڈز کو خالی کروا کے دروازے بند کر دیئے گئے جبکہ انتہائی تشویشناک حالت والے مریضوں کو سی سی یو تھری انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا جا رہا ہے اور بڑی تعداد میں مریضوں کو ڈسچارج کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے آج یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں پی آئی سی واقعے کا نوٹس لیا ہے ،انہوں نے واقعہ کے بارے میںچیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی، وزیر اعظم نے اس واقعہ کے بارے میں فوری رپورٹ طلب کی۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی سے رابطہ کیا اور ان کو ہدایت کی کہ اس میں ذمہ داروں کا فوری تعین کر کے قانونی کارروائی کی جائے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلی پنجاب کو فوری پی آئی سی کا دورہ کرنے کی بھی ہدایت کی ۔لاہور کے واقعہ کے حوالے سے تحقیقات کے بعد قانون کے مطابق کارراوئی کی جائے گی ،ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں لاہور میں پیش آنے والے واقعہ کا جائزہ لیا گیا ،اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب ،صوبائی وزراء اور دیگر حکام نے شرکت کی ،اجلاس میں واقعہ کی ابتدائی رپورٹ پر بات چیت کی گئی ،وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ اس معاملہ کی مکمل تفتیش ہو گی اور اس کی روشنی میں قانون پر عمل ہو گا۔پاکستان بار کونسل نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں وکلا کی ہنگامہ آرائی کی مذمت کی ہے اور اس واقعہ کو چند وکلا کی انفرادی کاروائی قرار دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیر مین امجد شاہ نے میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ یہ چند وکلا کا انفرادی فعل ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں،انہو ں نے کہا کہ پہلے ڈاکٹرز نے وکلا سے بدتمیزی کی جس کے بعد وکلا مشتعل ہوئے،واقعے کی تحقیقات کے لیے وائس چیئرمین پنجاب بارکونسل کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے جو اس کا جائزہ لے گی ،تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ انہو ں نے کہا کہ لاہورہائی کورٹ بار اور لاہورڈسٹرکٹ بار کے نمائندوں سے رابطہ کرکے انہیں صو رتحال کوکنٹرول کرنے کا کہا ہے،ہم ہرطرح کے تشدد کے خلاف ہیں اور اس کی حمایت نہیں کرتے۔