• news
  • image

اجتماعی موت!!!!

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جو ہوا ہے یہ نہ تو واقعہ ہے حادثہ ہے نہ سانحہ نہ کوئی اتفاق ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں معاشرے کی اجتماعی موت ہے۔ اجتماعی واقعات معاشرت کی انفرادی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اجتماع میں ہونے والے واقعات معاشرے کے عمومی مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔ اجتماعی فیصلے اور ردعمل معاشرے کی سمجھ بوجھ، احساس اور تہذیب کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اتنے پست ہو چکے ہیں کہ ہمیں نہ مذہبی احکامات کا خیال ہے نہ دنیاوی قوانین کا پاس ہے نہ مہذب روایات کی پرواہ ہے نہ اقوام عالم کی کوئی فکر ہے۔ ہم ایسے جاہل، اجڈ بدتمیز و بدتہذیب ہو چکے ہیں کہ جس سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔
پی آئی سی میں ہونے والی بدتہذیبی معاشرے کی وہ تلخ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی جگہ انفرادی حیثیت میں اتنا ہی ظالم ہے یا اس سے بھی بڑھ کر ظالم ہے۔ ہم شیشے کے سامنے کھڑے ہو جائیں، اپنے گریبان میں جھانکیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی، ہم خود کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم انسان ہیں، مسلمان ہیں لیکن ہم شرافت اور تہذیب کے نام پر دھبہ ہیں۔ جن لوگوں کو یہ زعم ہے یا وہ اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں انہیں بھی اپنے خیالات پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ ہم آج بھی تقسیم ہیں۔ کہیں سیاسی طور پر، کہیں زبان کے نام پر، کہیں صوبے کے نام پر، کہیں علاقے کے نام پر، کہیں مذہب کے نام پر، کہیں مسلک کے نام پر، کہیں برادری کے نام پر تو کہیں نسل کے نام پر۔ ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو مفادات کے لیے، اجتماع کرتے ہیں تو انتقام کے لیے، جمع ہوتے ہیں تو تباہی و بربادی کے لیے۔ ہمارا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہم ذاتی حیثیت میں اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ نہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے نہ کسی کو ہمارے خلاف سازش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنا بیڑہ غرق کرنے کے لیے خود ہی کافی ہیں۔
یہ بات ہو رہی ہے کہ انسانیت شرمندہ ہے لیکن کس سے، اس کے لیے انسانوں کا باشعور ہونا ضروری ہے۔ ہمیں نہ عقل ہے نہ سمجھ ہے نہ فکر ہے نہ شعور ہے۔ ہم جاہلوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں زعم ہے کہ آزاد ہیں، مالدار ہیں، پڑھے لکھے ہیں، صاحب حیثیت ہیں، ڈگریاں پاس رکھتے ہیں، عالم ہیں لیکن ذرا آنکھ کھول کر دیکھیں، کان کھول کر سنیں دنیا ہمارے بارے کیا کہتی ہے۔ لوگ ہمیں دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں یہ ہماری حیثیت ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ جنگ میں بھی ہسپتالوں پر حملے نہیں کیے جاتے ٹھیک کہتے ہیں لیکن اس جملے کو سمجھنے کے لیے جس عقل کی ضرورت ہے ہم اس سے عاری ہے۔ یعنی جنگی حالات میں بھی ہسپتالوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ وہاں معذور، بیمار افراد موجود ہیں انہیں تکلیف دینے کی اجازت جنگ میں بھی نہیں ہے۔ ہم امن کے حالات میں بھی ان روایات کو قائم نہیں رکھ سکتے تو جنگ کی کیفیت میں ہماری دماغی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا۔ امن، تہذیب کی جو مثالیں اس واقعے کے بعد دی جا رہی ہیں ہمارا ان سے دور دور کا کوئی تعلق ہے۔ نہ ہم اسے سمجھ سکتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے اندر وہ فکر اور سوچ مر چکی ہے جو بکھرے ہوئے انسانوں کے اجتماع کو قوم اور باشعور معاشرہ بناتی ہے۔ ہماری اخلاقی موت واقع ہو چکی ہے اور شعوری طور پر ہم بہت پہلے مر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تباہی ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔
جہاں احتجاج کے نام پر مریضوں کو مار پیٹ کی جائے، علاج روک دیا جائے، آکسیجن ماسک کھینچ لیے جائیں ، ہسپتال کو میدان جنگ بنا دیا جائے، جہاں ہارن بجانے کی اجازت نہیں وہاں طوفان بدتمیزی برپا کیا جائے، گاڑیوں کو آگ لگا دی جائے، فائرنگ کی جائے، آپریشن تھیٹر پر حملہ کر دیا جائے وہاں سے تباہی کی باقیات ہی ملیں گی۔ اس معاشرے میں روشنی نظر نہیں آئے گی۔
جہاں ہڑتال کے نام پر ایمرجنسی بند کر دی جائے، وارڈز کو تالے لگا دیے جائیں، ہسپتال کا عملہ مریضوں کو تڑپتا دیکھتا رہے لیکن ذاتی مفادات کے لیے علاج کی سہولیات فراہم نہ کرے، جہاں مسیحا بھیڑئیے بن جائیں، جہاں مسیحا زندگی کے دشمن بن جائیں وہاں سے امید کی کرنیں نہیں موت کے راستے نکلتے ہیں اور ہمارے اردگرد ہر طرف موت رقص کر رہی ہے۔ ہمیں کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں ہم تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ماڈل ٹاون کا قتل عام ہو یا سانحہ ساہیوال یا بلدیہ ٹاون کراچی میں لگنے والی آگ یا نقیب اللہ محسود کا قتل ہو یا کراچی میں ایک عرصہ تک قائم رہنے والے عقوبت خانے یا ملک کے دور دراز علاقوں میں ڈاکوؤں کے گینگ یا ہر روز ہونے والے ہزاروں جرائم تمام اعدادوشمار ہماری تباہی کا پتہ دیتے ہیں۔ نہ انسانوں کو شرم آئے گی نہ انسانیت شرمسار ہو گی، نہ قانون اپنا راستہ بنائے گا نہ انصاف عام ہو گا، نہ ذمہ داروں کو نشان عبرت بنایا جائیگا نہ بہتری آئے گی۔ یہی ہمارا ماضی ہے یہی حال ہے اور مستقبل بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن