فیاض الحسن چوہان نے نیا محاذ کھول دیا!!!!!
صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اس لیے سرائیکی صوبے کا قیام ممکن نہیں ہے۔
نو مئی دوہزار اٹھارہ کو سربراہ پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور جنوبی پنجاب محاذ کے نمائندے کے طور پر خسرو بختیار نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے بعد جنوبی پنجاب محاذ نامی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہو گئی تھی۔ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام حکمران جماعت کے منشور کا حصہ ہے۔ معاہدہ طے پایا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب علاقوں پر مشتمل الگ صوبہ بنانے کی پابند ہو گی۔ تحریک انصاف نے حکومت بنانے کے بعد جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم بھی کیا تھا لیکن اب فیاض الحسن چوہان کے بیان بعد نہ سیکرٹریٹ رہے گا نہ الگ صوبے کی تحریک رہے گی، نہ عوام کو ضرورت رہے گی نہ اس صوبے کے نام پر سیاست ہو سکے گی۔ مئی دوہزار بارہ میں بھی پنجاب اسمبلی میں صوبہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے قیام کے حوالے سے متفقہ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں جبکہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے اس حوالے سے الگ قرارداد بھی پیش کر چکی ہے۔
اس پس منظر کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ الگ صوبے کے قیام اور الگ صوبے کے نام پر جنوبی پنجاب میں رہنے والے ایک عرصے سے بیوقوف بن رہے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سے اس حوالے سے بہت امیدیں تھیں جس سپرٹ کے ساتھ یہ کام شروع ہوا تھا توقع تھی کہ جنوبی پنجاب کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا اور محروم افراد کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے یکساں مواقع ملیں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ کیا گیا وعدہ بھلا دیا ہے۔
صوبائی وزیر کے اس بیان نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ چونکہ وہ صوبائی حکومت کے وزیر اطلاعات ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی ذاتی رائے، خیال یا سوچ نہیں ہے اسے حکومت کی پالیسی ہی سمجھا جائے گا۔ یوں فیاض الحسن چوہان کے بعد جنوبی پنجاب کے عوام ایک مرتبہ پھر اپنے بنیادی حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عوام یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوئے ہیں کہ انتخابی وعدے کیوں پورے نہیں ہوتے اور کون سے ایسی حکومت ہو گی جو انتخابی وعدوں پر قائم رہے گی اور حکومت میں آنے کے بعد عوام سے کیے وعدوں پر کھڑی رہے گی۔ سیاست دانوں کی وعدہ خلافیوں پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ اس کے باوجود وہ ہر دور میں عوام کی سادگی اور مجبوری کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ عوام وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کے باوجود بار بار انہیں لوگوں پر اعتماد کر کے اپنا مستقبل انہی لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں جو ماضی میں بھی وعدہ خلافی کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ کسی ایک صوبے، کسی ایک اسمبلی اور ایک حلقے کا مسئلہ نہیں ہے۔ تمام اسمبلیوں میں بیٹھے سیاست دانوں کی اکثریت کا یہی مسئلہ ہے۔ عوام سے وعدے نبھائے نہیں جاتے، سیاست دان اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں اور سیاست دانوں اپنے چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے عوام کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اچھا سیاسی ماحول قائم نہیں کر سکے، یہی وجہ ہے کہ آج تک ووٹرز کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا علم نہیں ہو سکا۔ عوام کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا علم نہیں ہے اور سیاست دان آج تک انہیں ووٹ کی اہمیت کا احساس دلانے میں ناکام رہے ہیں۔ووٹ کی اہمیت صرف ایک سرمایہ دار، صنعتکار، جاگیردار یا حکمرانی کا شوق رکھنے والے کسی بھی شخص کو اسمبلی میں بھجوانے تک کی ہے۔ جو ووٹ ڈالتے ہیں انہیں یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ ایک ووٹ ایک عام انسان کو خاص بنا دیتا ہے۔ پھر وہ جو چاہے کرے، نہ کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی پوچھنے والا اور یہی ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ ہے۔
فیاض الحسن چوہان کا بیان پڑھنے کے بعد ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر کب تک عوام کے ساتھ دھوکہ ہوتا رہے گا۔ جنوبی پنجاب کے کروڑوں عوام اپنے سیاسی قائدین کو ڈھونڈ رہے ہوں گے اور یہ گانا بھی سن رہے ہوں گے کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ، یا پھر کہتے ہوں گے واجاں ماریاں تے بلایا کئی وار میں کسے نیں میری گل نہ سنی۔ جنوبی پنجاب کے عوام ڈھونڈ رہے ہوں گے اپنے محبوب قائدین کو جنہوں نے اپنی عوام سے ووٹ ہی اسی نام پر لیے تھے۔
سیاست کا حسن اور انفرادیت یہی ہے کہ مشکل نظر آنے والے کاموں اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ مخالفین کو قائل کیا جاتا ہے اور عوامی مسائل کا حل نکالنے کے لیے طویل نشستیں کی جاتی ہیں۔ سیاسی لوگوں کی خوبی ہی مسائل کا حل نکالنا ہے۔ ماضی میں بھی پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے کام ہوا ہے تو پھر ترجیحات کے تعین میں رکاوٹ کیا ہے۔ کہیں ایس تو نہیں کہ اس حوالے سے بامقصد گفتگو ہی نہیں کی گئی۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس منصوبے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ وزارتیں وصول کرنے کے بعد وہ جماعت جس کے قیام کا مقصد ہی الگ صوبے کا قیام تھا۔ وزارتیں لینے کے بعد مقصد بدل دیا گیا ہے۔ کچھ بھی ہو یہ ایک عمل ہے جس کے بعد سے عوام کا اپنے قائدین سے اعتماد کم ہونا چاہیے۔ انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنائے بغیر ووٹر اور سیاست دان کے مابین اچھا سیاسی تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔ ایسے فیصلے سیاسی روایات اور سیاسی حکومتوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔ اس اعلان کے بعد جنوبی پنجاب کے عوام کو بھی سوچنا ہو گا کہ انہوں نے مستقبل میں اپنے سیاسی قائدین کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے اور ان کا استقبال کیسے کرنا ہے۔