نواز شریف کو ’’زہر خورانی‘‘کاخدشہ اور ’’ ان ہائوس ‘‘ تبدیلی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کو علاج کے لئے لندن گئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بھی ان کے ہمراہ ہیں ۔سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے جس میں سرجن ڈاکٹر ڈیوڈ آرلارنس نے ان کو زہر دینے کے خدشہ کا اظہار کیا ہے تاہم وزیر اعظم کے معالجین کے لئے میاں نواز شریف کے پلیٹ لٹس گرنے کا معاملہ ’’معمہ‘‘ بنا ہوا ہے۔ تاحال ڈاکٹرز ان کے مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا علاج شروع نہیں کیا جا سکا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف جنہوں نے ان دنوں لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ملکی سیاسی صورت حال پر ’’مشاورت ‘‘ کے لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’’ چیدہ چیدہ‘‘ رہنمائوں کو لندن بلوا لیا ۔ جن رہنمائوں نے لندن اجلاس میں شرکت کی ان میں خواجہ آصف،احسن اقبال ،رانا تنویر حسین ، امیر مقام ،خرم دستگیرخان ،پرویز رشیداورمریم اورنگ زیب شامل ہیں میاں شہباز شریف نے جو لبنانی کھانوں کے ’’شوقین ‘‘ ہیں پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کی جہاں تواضع جہاں لبنانی ریسٹورنٹ میںکی وہاں لنچ پر’’ سیاسی بیٹھک ‘‘ کا بھی اہتمام کیا اس دوران ہی میاں شہباز شریف نے جہاں مسلم لیگی رہنمائوں کو ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کے پلان بارے میں اعتماد میں لیا وہاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بارے میں قانون سازی کے معاملہ پر مشاور ت کی۔ راقم السطور کا مسلم لیگی وفد سے لمحہ بہ لمحہ رابطہ رہا ۔مسلم لیگی قائدین کی میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کرائی گئی ملاقات کے بعد ایک مسلم لیگی رہنما نے بتایا کہ گو میاں نواز شریف کا’’ مورال‘‘ بلند ہے لیکن علالت نے ان کی مسکراہٹ اور بزلہ سنجی چھین لی ہے ۔ میاں نواز شریف کوچپ سی لگ گئی ہے وہ بہت کم گفتگو کرتے ہیں ۔ جج وڈیو سکینڈل میں شہرت پانے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے قائم مقام صدر ناصر بٹ جن کا راولپنڈی سے تعلق ہے نے بتا دیا تھا کہ ڈاکٹرز میاں نواز شریف کو ’’زہر ‘‘ دینے کے’’ خدشہ‘‘ کا اظہار کر رہے ہیں جس کی تصدیق لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تازہ ترین رپورٹ میں ہو گئی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کا اعلیٰ سطح کا وفد لندن میں پارٹی کے قائد میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف سے ملاقات کے بعد پاکستان واپس آگیا ہے۔ لندن یاترا کا بڑا فیصلہ’’ ان ہائوس‘‘ تبدیلی کا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف شروع دن سے ’’ان ہائوس‘‘ تبدیلی اور قومی حکومت کی کسی تحریک کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن اچانک کیا ’’انہونی ‘‘ ہو گئی کہ میاںنواز شریف نے پارٹی کو اس آپشن کو آزمانے کی اجازت دے دی۔ ماضی میں عدم اعتماد کی کوئی بھی تحریک ’’ایسٹیبلشمنٹ‘‘ کی ’’آشیرباد کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی لہٰذا میاں شہباز شریف نے ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کی جو بات کی ہے اس کے پیچھے کوئی بات تو ہو گی لیکن میاں شہباز شریف جہاندیدہ سیاست دان ہیں انہوں نے اس سلسلے میں ’’ہوم ورک اور رابطوں ‘‘ کی تفصیلات کے بارے میں کسی سے شیئر کیا اور نہ ہی کسی مسلم لیگی رہنما نے ان سے ’’رابطوں ‘‘ کے بارے میں استفسار کیا تاہم ایک مسلم لیگی رہنما نے بتایا کہ میاں شہباز شریف اپنے ارادوں بارے پر عزم دکھائی دئیے ہیں ۔ سردست ان کی وطن واپسی کا بھی کوئی امکان نہیں وہ میاں نواز شریف کی مکمل صحت یابی تک لندن میں قیام کریں گے اور لندن میں بیٹھ کر کر ہی ’’وڈیو‘‘ لنک کے ذریعے پارٹی رہنمائوں سے رابطے میں رہیں گے۔ جمعیت علما اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمنٰ ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے ’’آپشن ‘‘کو بروئے کار لانے کے حق میں نہیں ۔ ’’ایسٹیبلشمنٹ‘‘ کی’’ آشیرباد ‘‘ نہ ہونے کے باعث چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ناکام تجربہ کر چکے تھے لہذا اب وہ دوبارہ اس عمل سے گذرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے اور وہ از سرنو انتخابات چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو دھرنا ختم کرانے والی قوتوں نے دسمبر 2019 ء یا اگلے سال کے اوائل میں سیاسی افق پر جس تبدیلی کی راہ میں حائل نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کیا اس یقین دہانی پر عمل درآمد کا وقت آگیا ہے یہ ’’ون ملین ڈالر‘‘ سوال ہے جس کا اپوزیشن رہنمائوں کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کی پوری قیادت دھڑلے سے حکومت اور ایسٹیبلشمنٹ کے ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے میاں شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کو قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کا ڈول ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا بلاول بھٹو زرداری نے بھی گلہ کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی چاہتی ہے لیکن وہ سندھ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا گورنر راج کے نفاذ سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے ۔ اگر ’’ایسٹیبلشمنٹ‘‘ واقعی غیر جانبدار ہو تو کوئی بھی ’’پولیٹیکل ایڈونچر‘‘ کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے مقتدر قوتوں کے ان ہائوس تبدیلی کے موقع پر غیر جانبدار رہنے سے سیاسی میدان میں ’’فتوحات ‘‘ حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ اس نوعیت کا کوئی’’ پولیٹکل ایڈو نچر‘‘اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک ایسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی اکثریت نہیں تاہم پارلیمان میں ملک کی پارلیمانی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔ پارلیمان کی ہیئت ترکیب کچھ اس طرح ہے ایوان زیریں میں حکومت اتحادی جماعتوں کی 10،12 بیساکھیوں پر قائم ہے۔ اگر ان میں سے 5،6 بیساکھیاں کھینچ لی گئیں تو پوری حکومت’’ دھڑام‘‘ سے زمین بوس ہو سکتی ہے ۔ بظاہر ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کی تحریک کہیں نظر نہیں آرہی لیکن جس زور شور سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے وزیر اعظم کی قائم کردہ کمیٹی سے رابوں میں تیزی آئی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ’’زیر زمین ‘‘ کوئی ایسی تحریک ضرور ہے جس کو ناکام بنانے کے لئے حکومت سرگرم عمل ہو گئی ہے اور اتحادیوں کے دوبارہ ناز نخرے اٹھانا شروع کر دئیے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی نے ایم کیو ایم کو رام کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ جہانگیر ترین بلوچستان نیشنل پارٹی کو راضی کرنے کے لئے ملاقاتیں کر رہے ہیں اسی طرح’’چوہدری برادران‘‘ بھی ’’کپتان‘‘ کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر نالاں ہیں ۔ لندن میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایون فیلڈ فلیٹس میں مقیم علیل نواز شریف کے خلاف مظاہرہ کرکے’’ اشتعال‘‘ کی کیفیت پیدا کر دی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریر کر کے حکومت کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے انہوں نے نوائے وقت کو بتایا کہ اپوزیشن کا سینیٹ میں نیب آرڈننس میں ترمیم کا بل پڑا ہے حکومت اس بل کی منظوری میں اس حد تک دلچسپی رکھتی ہے ۔ان سے دو وزراء نے کہا ہے کہ یہ ترمیم منظور کرا لی جائے تو کل نیب کا قانون ان کے خلاف استعمال ہو گا لہذا میں نے اس تناظر میں حکومت سے تعاون نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کا معاملہ ہے ہم ان سے بات کریں گے جن سے بات کرنا ہو گی۔ اس معاملہ میں حکومت کا اپنا کوئی کردار نہیں ۔
تاحال چیف الیکش کمشنر اور ارکان کی تقرری بارے ’’ڈیڈ لاک ‘‘ پایا جاتا ہے۔ حکومت بابر یعقو ب کو ہر قیمت پر چیف الیکشن بنانے پر اصرار کر رہی ہے جب کہ اپوزیشن نے بابر یعقوب کو چیف الیکشن کمشنر بنانے سے انکار کر دیا ہے ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والی مشاورت بابر یعقوب کی شخصیت کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ دو روز قبل بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت کے دو ادوار ہوئے لیکن کوئی بات نہیں بنی حکومت نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ سندھ اور بلوچستان سے اپنی مرضی کے ارکان نامزد کردے اور الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری بابریعقوب کو چیف الیکشن کمشنر کے طور پر قبول کر لے لیکن اپوزیشن بابر یعقوب کو انتخابی دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے چیف الیکشن کمشنر کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اب پارلیمانی پارٹی کا آئندہ اجلاس 16 دسمبر2019ء کو ہوگا۔ اسلام آباد ہائی کور ٹ کی جانب سے دی جانے والی دس روز کی مہلت بھی اسی روز ختم ہورہی ہے ۔ حکومت کی ضد کی وجہ سے اتفاق رائے ممکن نہیں۔ پیر کو بھی ڈیڈ لا ئن ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی لہذا یہ معاملہ سپریم کور ٹ میں ہی جا کر طے ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے ارکان کی تقرری کے لئے قائد قائد ایوان اور حزب اختلاف کے درمیان ’’ بامعنی مشاورت ‘‘ آئینی تقاضا ہے لیکن وزیر اعظم ، اپوزیشن لیڈر سے ملاقات کے لئے تیار نہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن ’’ غیر فعال‘‘ ہو گیا ہے ۔
جمعیت علما ء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قوم کو ’’خوشخبری‘‘ سنانے کے لئے ایک ماہ انتظار کرنے کا کہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے اپوزیشن جماعتیں مل کر سیاسی افق پر تبدیلی لانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاسی حکمت عملی سے اپوزیشن کی’’ خواہشات ‘‘ پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اس سوال کا جواب نئے سال کا سورج طلوع ہونے پر ہی ملے گا۔