• news

آرمی چیف ملازمت توسیع: تفصیلی فیصلے کے بعد نظر ثانی درخواست دائر کر سکتے ہیں: فواد چودھری

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مذکورہ معاملے پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی بجائے عدالت میں نظرثانی درخواست دائر کرنے کا عندیہ دے دیا۔ یہ عندیہ وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ایک آپشن حکومت کے سامنے نظرثانی کی درخواست دائر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس کے حق میں ہیں۔ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانون سازی کو متعارف کروائے گی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ قانون سازی کرنے کے بجائے یہ کیس سپریم کورٹ میں واپس جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ان کی رائے تھی کہ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے پیش کیا جائے گا تو آسانی سے حل ہوجائے گا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں سمیت تمام جماعتیں اس کی حمایت کریں گی۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ موجودہ مخصوص حالات میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع ضروری ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں فیصلہ سنانے والے تینوں ججز مضبوط عدالتی پس منظر والے 'عظیم جج' ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں فیصلے میں کچھ قانونی کمزوریاں تھیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 243 کو 'تقریبا' ختم کر دیا۔ اپنے موقف کے حق میں انہوں نے استدلال پیش کیا کہ عدالت پارلیمنٹ کو یہ نہیں بتا سکتی کہ اسے کیا قانون سازی کرنی چاہیے اور کیا نہیں ۔آئین کے آرٹیکل 243 (4) کے مطابق وزیراعظم کے مشورے پرصدرچیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی،چیف آف آرمی اسٹاف،چیف آف دی نیول اسٹاف اورچیف آف ایئر اسٹاف اور ان کی تنخواہوں اور الائونس کا بھی تعین کرسکتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا ذکر 1956 اور 1962 کے دستور میں ہوا تھا۔تاہم انہوں نے کہا ایک مکمل بحث و مباحثے کے بعد پارلیمنٹ نے 1973 کے آئین کی منظوری کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت کو ختم کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ وزیر اعظم کو ان کی خواہش کے مطابق آرمی چیف کے تقرر یا ان کے خاتمے کے لیے بااختیار بنانا چاہتی تھی۔ فواد چوہدری نے مزید کہا اگر اس اصطلاح کا کوئی تذکرہ ہوگا تو ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم وقت سے پہلے کسی آرمی چیف کو کیسے ختم کردیں گے۔ اس سے قبل چیف جسٹس نے سیمینار میں شرکت کے بعد کچھ صحافیوںسے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے حکومت، مسلح افواج، اپوزیشن اور عدلیہ کے درمیان بات چیت کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ تمام ادارے اپنی 'حدود' کے بارے میں ایک مرتبہ فیصلہ کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ چاروں ادارے آپس میں لڑتے رہے تو ہم افراتفری کا شکار ہوجائیں گے ۔فواد چوہدری نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے ایک ساتھ بیٹھ کر اپنی حدود کے بارے میں بات کریں کیونکہ اقتدار کی ہوس ملک کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھی کمزور کررہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پارلیمنٹ، جو سب سے طاقتور اور اعلی ترین ادارہ ہونا چاہیے، وہ ملک کا سب سے کمزور ادارہ بن رہا ہے ۔سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے بھی ریاستی اداروں میں قومی مکالمہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ رضا ربانی نے اختیارات کے 'عزم' کی بات کی تھی جبکہ میں 'حدود' کے بارے میں بات کررہا ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن