آرمی چیف کی ملازمت توسیع پارلیمنٹ کے سپرد، 6 ماہ کے اندر قانون سازی ضروری: سپریم کورٹ
اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ نے چھ ماہ میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری سے متعلق قانون سازی نہ کی تو صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کو بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔ قانون اور آئین میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3سال توسیع کو قانونی حمایت حاصل نہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ ہماری جمہوریت اتنی میچور ہو چکی ہے کہ برطانوی عدالت کے اس کیس کا حوالہ دیا جا سکے آپ جتنے بھی بڑے ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف تقرری کیس کا فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 41 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جبکہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ لکھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ متعدد فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ قانونی سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران ہم نے آئین کے آرٹیکل 243، آرمی ایکٹ ،آرمی رولز ، آرمی ریگولینشز کا جائزہ لیا۔ تاہم کسی بھی قانون کے اندر آرمی چیف کی مدت اور توسیع کا کوئی ذکر نہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔ کسی بھی قانون میں جنرل کی ریٹائرمنٹ اور عہدے کی میعاد کا ذکر نہیں تاہم اداراتی روایات کے مطابق فوج کا جنرل تین سال کی میعاد پوری ہونے پر ریٹائر ہوجاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ادارہ جاتی روایات قوانین کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔ آرمی چیف کے آئینی عہدہ کو بغیر قانون سازی رکھنا ناقابل فہم اور آئین کے برخلاف ہوگا۔ قانون کے مطابق آرمی چیف کی تقرری، توسیع یا دوبارہ تقرری سے متعلق کیس کو پہلی مثال کے طور پر لیتے ہوئے معاملے پر قانون سازی کا موقع ملنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قانون میں جنرل کی عہدے کی میعاد میں توسیع کا کوئی ذکر نہیں اور جنرل کے عہدے میں توسیع کی تسلسل سے روایات بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قانون سازی کی عدم موجودگی میں وزارت دفاع کی جانب سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی سمریاں انکی صدر، وزیراعظم یا کابینہ سے منظوریاں بظاہر بے مقصد اور بے اثر ہی نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آرمی ریگولیشنز 255کے تحت وفاقی حکومت کو جنرل کے عہدہ میں پوری میعاد کی توسیع دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ تاہم اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر مناسب ہوگا کہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا معاملہ عوام کے منتخب نمائندے بذریعہ قانون سازی کریں۔ تاہم آرمی چیف کے عہدہ کی اہمیت اور ذمہ داریوں کے پیش نظر موجودہ آرمی چیف جنرل قرجاوید باجوہ چھ ماہ کے لئے عہدہ پرفرائض سرانجام دیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے چھ ماہ میں قانون سازی نہ ہونے کے نتیجے میں جنرل کے عہدہ کی تین سال کی روایت لاگو ہوگی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی تین سال کی میعاد انکی تقرری 29نومبر 2016 سے لاگو ہو گی جس کے بعد صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کی بطور آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ آرمی چیف کی تعیناتی میں استحکام لانا منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ پارلیمان کو یاد رکھنا چاہیے قومیں اداروں کو مضبوط کرنے سے ہی ترقی کرتی ہیں۔ فیصلے میں امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، سنگاپور، ملائیشیا، نیوزی لینڈ کی افواج کے قوانین کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ تمام ممالک کے قوانین میں افواج کو ہر طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔ حکومت نے آرمی ریگولیشن کی سیکشن 255 میں راتوں رات ترمیم کی گئی سیکشن 255 آرمی چیف سے متعلق نہ ہونے پر اس میں لفظ توسیع شامل کرنا بے سود رہا،21 اگست کو آرمی چیف کی توسیع کو کابینہ کے دستیاب ارکان کی منظوری تصور کیا گیا۔ توسیع کو کابینہ کی منظور تصور کرتے ہوئے بھی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ قانون سازی نہ ہوئی تو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت 29نومبر 2016 سے شمار ہوگی، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے لفظ قانون کے مطابق کا استعمال نہیں ہوا۔ اٹارنی جنرل کے مطابق کسی ریٹائرڈ جنرل کو بھی آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے آرٹیکل 243 کی ذیلی دفعہ 3 کو الگ سے نہیں پڑھا جا سکتا، اور قانون میں آرمی جنرل کی ریٹائرمنٹ کیلئے کوئی عمر نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق ادارہ جاتی روایت کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال ہے، ادارہ جاتی روایت کو قانون کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا، وفاقی حکومت آرمی جنرل کی مدت کو ضابطے کے تحت لانے میں ناکام رہی، اٹارنی جنرل نے چھ ماہ میں آرمی چیف سے متعلق قانون سازی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ آرمی چیف کے آئینی عہدے کو قواعد و ضوابط کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آرمی چیف کے آئینی عہدے پر تعیناتی ہمیشہ کیلئے بھی نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کا عہدہ قواعد و ضوابط کے بغیر ہوا تو آہین بے معنی ہوجائے گا۔ تحریری تفصیلی فیصلے میںکہا گیا ہے کہ قانون سازی ہونے تک روایات کے مطابق فوجی جنرل کے عہدے کی معیاد تین سال رہے گی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ میں کہنا ہے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان میں آرمی چیف دیگر عہدوں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، قانونی ڈھانچے کے بغیر بے پناہ طاقت اور صوابدید خطرناک ہے۔ حیران کن ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت کا آج تک تعین نہیں ہو سکا، آئین صدر پاکستان کو قانون کے مطابق افواج رکھنے کا اختیار دیتا ہے، آرمی چیف جیسے اہم عہدے کے لیے ضوابط نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ توقع ہے پارلیمان قانون سازی کرکے سالہا سال پرانی غلطیوں کا ازالہ کریگی۔ چیف جسٹس نے اضافی نوٹ میں انگلینڈ کے چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک کے ایک مقدمے کنگ جیمز کے اختیارات سے متعلق 1616کیس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے آپ جتنے بھی بڑے ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے۔ جمہوریت اتنی میچور ہو چکی ہے کہ برطانوی عدالت کے اس کیس کا حوالہ دیا جا سکے۔ تفصیلی فیصلے میں دائر درخواست کو واپس لینے سے متعلق کہا گیا ہے مفاد عامہ کا مقدمہ عدالت کی اجازت کے بغیر واپس نہیں لیا جا سکتا، عوامی مفاد کے معاملے میں دیکھنا ہوتا ہے کیا معاملہ ماورائے عدالت طے تو نہیں ہوگیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سوال اٹھتا ہے کیا آرمی ریگولیشنز کی دفعہ 255 میں آرمی چیف کو توسیع دینے کی گنجائش ہے،آرمی چیف کی تعیناتی عوام کی سکیورٹی سے براہ راست جڑی ہوئی ہے ااٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت نے عدالت، دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل عدالت میں آرمی چیف کی توسیع کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تحریری فیصلے کے مطابق آرمی چیف کی آئینی مدت کو مکمل طور پر بے ضابطہ نہیں چھوڑا جا سکتا، معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر رہے ہیں، 6 ماہ میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ وزیراعظم کو ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے مناسب قانون سازی ہے ریگولیشنز میں سے نقائص نکالے۔