• news

غداری کیس مشرف کو سزائے موت کا حکم

اسلام آباد (محمد صلا ح الدین خان/ نمائندہ نوائے وقت) اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت قائم سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنا تے ہوئے مختصر فیصلہ جاری کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیاجائے گا۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس نذر محمد اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی اور جسٹس سیٹھ وقار نے چار سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔ پرویز مشرف پر 5چارج فریم کرتے ہوئے سزا سنائی گئی۔ تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ ذرائع کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جج نذر محمد اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ سماعت کے دوران پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے آج تین درخواستیں دائر کیں ہیں، حکومت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دی گئی ہے۔ حکومت شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانا چاہتی ہے۔ استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں؟، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہوسکتی ہے، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا تھا۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا، مشرف کی شریک ملزمان کی حوالے سے درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے، فرد جرم عائد کی جاچکی ہے جس میں عدالت کی اجازت کے بغیر ترمیم نہیں کی جاسکتی فاضل عدالت نے ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دی گئی تھی، اس پر استغاثہ نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی۔دران سماعت جسٹس شاہد کریم نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ اگر آپ نے مزید کسی فرد کو شریک ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کریں، کیا حکومت چاہتی ہے کہ مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار ہو؟، اگر عدالت نے تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی، لہذا عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نذر علی اکبر نے کہا کہ چارج شیٹ میں ترمیم کے لیے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی، عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی، اسی کے ساتھ جسٹس شاہد کریم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے،استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے'جبکہ جسٹس نذر نے کہا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔دوران سماعت جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ سیکریٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ میں ترمیم کرسکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے، حکومت کارروائی میں تاخیر نہیں چاہتی تو شریک ملزمان کے خلاف نئی درخواست دے سکتی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ منیر بھٹی نے کہا سابق پراسیکیوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا، جسٹس نذر نے استفسار کیا کہ سابق پراسیکیوٹرز کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ہے؟۔ اسی دوران جسٹس شاہد نے استغاثہ سے استفسار کیا کہ آپ اس چارج شیٹ میں کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں، آپ ان لوگوں جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے ان کے خلاف نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتے، آپ کیس میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔ وکیل استغاثہ نے کہا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے جبکہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہوگی، اگر پہلے مرکزی ملزم کا ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو جو مددگار تھے ان کا کیا ہوگا۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکاہے، اس معاملے میں تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ(استغاثہ) کو علم ہے کہ شہادت ہوچکی ہے، ان سہولت کاروں کے خلاف کیا ثبوت ہیں، جس پر استغاثہ نے جواب دیا گیا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، جن کو آپ شامل کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا تحقیقات ہوئیں۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ استغاثہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے، جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف تحقیقاتی ٹیم کے 2 ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے۔ پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا کہ ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے، عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملزم کا دفعہ 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ وہ بات کر رہے ہیں جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں۔ انہوں نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ وہ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں، اگر آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں، جس پر علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا میری تیاری نہیں، اس پر جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ پھر آپ بیٹھ جائیں اور وکیل صفائی کو بولنے کا موقع دیں۔ تاہم علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں، ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کارروائی چلانی ہے۔ اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر اور رضا بشیر پیش ہوئے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سلمان صفدر صرف رضا بشیر کی معاونت کرسکتے ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپ کی ضرورت نہیں جس پر وکیل نے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اورنہ دفاع کو، پھر کیسے کیس کو چلائیں گے، جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالتی مفرور شخص کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ساتھ ہی جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ضد نہ کریں۔بعد ازاں رضا بشیر نے عدالت کو بتایا کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو منصفانہ ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، پرویز مشرف 6 مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے ہیں،وکیل نے کہا پرویز مشرف کو دفاع کا حق ملنا چاہیے، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ اور آپ دونوں ہی مشرف کا دفاع کررہے ہیں۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا مشرف کو جب چاہیں پیش کردیں، جس پر رضا بشیر نے کہا کہ پرویز مشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہوسکیں، لہذا دفعہ 342 کے بیان کے بغیر مشرف کا دفاع کیسے کروں؟اس پر جسٹس وقار نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کرسکتے اس کا مطلب ہے آپ کے دلائل مکمل ہوگئے، جس پر رضا بشیر نے کہا کہ عدالت 15 سے 20 دن کا وقت دے پرویز مشرف بیان ریکارڈ کرائیں گے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد نے کہا کہ 342 کے بیان کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لیں گے، جس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبرز میں چلے گئے۔بعدازاں 11بجکر40منٹ پر عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹارڈپرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم سنایافیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا گیا، جس میں بینچ کے 2 ججز نے سزائے موت جبکہ ایک نے اس پر اعتراض کیاعدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔جسٹس وقار سیٹھ نے مختصر فیصلے میں کہا کہ 3 ماہ سے دلائل سننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مشرف سنگین غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔امکان ہے کہ سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے مین سنایا جائے گا۔

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کا ٹرائل کرنیوالی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کی فوری استدعا مسترد کر دی۔ فاضل عدالت نے کیس کی سماعت کے لئے فل بنچ تشکیل دینے کی سفارش کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس کو واپس بھجوا دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر پرویزمشرف کی درخواست پر سماعت کی۔ پرویزمشرف کے وکلاء خواجہ طارق رحیم اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف واپس آنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کو خصوصی عدالت تشکیل دینے کا اختیار نہیں تھا۔ خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکا جائے، عدالت نے استفسار کیا کہ عدالتی دائرہ اختیار کا نکتہ طے کئے بغیر کیسے حکم امتناعی جاری کیا جاسکتا ہے۔ علاقائی دائرہ اختیار کا فیصلہ تو عدالت نے ہر صورت کرنا ہے۔ بتایا جائے کہ درخواست گزار کہاں کا رہائشی ہے۔ وکلاء نے کہا کہ پرویز مشرف اسلام آباد کے رہائشی ہیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب تمام فریقین اسلام آباد کے رہائشی ہیں تو لاہور ہائیکورٹ کیسے سماعت کرسکتی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہاکہ خصوصی عدالت نے پراسیکیوشن کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ پرویز مشرف کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا۔ پراسیکیوشن نے کہا ہے کہ خصوصی کمیشن پرویز مشرف کے پاس بھجوایا جائے۔ عدالت نے کہاکہ خصوصی عدالت کی تشکیل پر اہم نکات اٹھائے گئے ہیں۔ درخواست کو سماعت کیلئے فل بنچ کے پاس بھجوایا جا رہا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کے لئے فل بنچ تشکیل دینے کی سفارش کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس کو واپس بھجوا دی۔

ای پیپر-دی نیشن