بھارت : شہریت بل کیخلاف احتجاج جاری، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے: امریکہ
نئی دہلی (ایجنسیاں) بھارت میں متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یونیورسٹی طلبہ پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ کئی ریاستوں میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور بل واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوری اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ مذہبی آزادی اور یکساں سلوک کا احترام جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں۔محکمہ خارجہ نے مظاہرین کے پر امن احتجاج کے حق کے تحفظ اور احترام کا بھی مطالبہ بھی کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے شہریت ترمیمی ایکٹ سے متعلق بھارت میں حالات پر گہری نظر ہے۔یمنسٹی انٹرنیشنل نے مسلم دشمن قانون شہریت کے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء پردہلی پولیس کی طرف سے تشدد کی مذمت کی ہے۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے ایک بیان میں کہا کہ مظاہرین کی گرفتاری سے بھارت نے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایمنسٹی نے کہاکہ طلباء کو جنسی طورپر ہراساں کرنے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے اور قصورواروں کو سزادی جانی چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ طلباء کو احتجاج کرنے کا حق ہے اور کسی بھی صورتحال میں ان پر تشدد کوجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نئی دہلی میں پولیس تشدد کا مقابلہ کرنے والی بہادر طالبات کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت اور پولیس سمیت کسی کا بھی خوف نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا سے گفتگو میں طالبات نے کہا پہلے یہ سب کچھ کشمیر میں کیا گیا۔ تب ہم خاموش رہے۔ پھر بابری مسجد کا فیصلہ آیا جس کے باعث ہم عدلیہ پر اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ طالبات نے کہا کہ اب شہریت ترمیمی قانون کا معاملہ سامنے آگیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اب یہ لوگ سارے بھارت کو نشانہ بنائیں گے۔ ریاستی گورنر جلدیپ ڈھنکھار نے وزیراعلیٰ بنگال ممتا بینرجی کے احتجاجی مارچ کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے لئے یہ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزراء نے شہریت قانون کے خلاف ریلی کی قیادت کی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ انہوں نے ممتا بینرجی سے کہا ہے کہ وہ اس غیرآئینی اور اشتعال انگیز عمل کو ترک کر دیں۔ عالمی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مودی بھارت کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانا چاہتے ہیں، وہ اپنے ہندو قوم پرست نظریے پر جارحانہ طریقے سے عمل پیرا ہیں، کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی ملک بدری کے واقعات سے ان خدشات کو توقیت ملی، مگر بابری مسجد کے فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ رپورٹ کے مطابق متنازعہ بھارتی قانون ان خدشات کو تقویت دے رہا ہے کہ وزیراعظم مودی سیکولر اور اجتماعیت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندو قوم بنانا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر جوکہ بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی، جس کی خصوصی حیثیت اور جزوی خود مختاری ہندو قوم پرستوں کو ایک عرصہ سے کھٹک رہی تھی، مودی حکومت نے 5 اگست کو اسے ختم کر کے دہلی کے ماتحت دو علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر مودی نے دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں معاشی ترقی اور وہاں کرپشن پر قابو پانے کیلئے کیا گیا ہے جبکہ کشمیریوں کی نظر میں اس کا مقصد ہندووں کو بسا کر علاقے کی علیحدہ شناخت ختم کرنا ہے۔ادھر آسام میں رواں سال شہریوں کی رجسٹریشن کے نام پر 19 لاکھ افراد کو شہریت کی فہرست سے نکال دیا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، انہیں حراستی کیمپوں یا ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی کے دست راست امت شاہ شہریوں کے قومی رجسٹر کا اطلاق پورے ملک پر کرنے کے عزم کا اظہا رکر چکے ہیں تاکہ 2024 تک غیروں کو ملک بدر کیا جا سکے۔