• news

مشرف کو سزا جمہوریت کو فتخ: قانون کیخلاف ہے، آئینی ماہرین کا ملا جلا ردعمل

لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) سابق صدر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی طرف سے آئین شکنی کے مقدمے میں اکثریتی رائے سے سنائی گئی سزائے موت کے فیصلے پر آئینی ماہرین نے مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ پرویز مشرف واحد آمر ہیں جنہوں نے دو بار دستور پاکستان کو توڑا۔ خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا قانون کے مطابق ہے۔ البتہ اس سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ یہ سزا 1999ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی گرفتاری یا پھر 3 نومبر 2007ء کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بچوں سمیت گرفتار کرنے پر سنائی گئی۔ تاریخ اور حقائق کا جائزہ لیا جائے تو دونوں بار ہی آئین شکنی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کی طرف سے پہلے 1999ء کو لگائے گئے مارشل لاء پر فیصلہ آنا چاہئے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ حقائق کے منافی ہے۔ خصوصی عدالت کی تشکیل پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ آئین شکنی کی درست تشریح ہی نہیں کی گئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں 60 سے زائد ججز کو غیرقانونی طور پر ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا، وہ اس سے بڑی آئین شکنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو بھٹو کیس سے بھی زیادہ منفی طور پر لیا جائے گا۔ عرفان قادر نے کہا کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہے۔ اگر اس پر عملدرآمد کیا گیا تو انتہا تک ردعمل آئے گا۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اشتر اوصاف علی نے کہا کہ خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو سزائے موت کے فیصلے کے دوررس قانونی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ ملزم کو 30 روز میں اپیل کرنے کا قانونی حق دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اپیل دائر کرنے کی صورت میں کیا مؤقف اختیار کیا جائے گا۔

اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل‘ نمائندہ نوائے وقت) قانونی ماہرین نے سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ خوش آئند اور جمہوریت کی فتح جبکہ پرویز مشرف کے سابق وکیل فیصل چوہدری نے فیصلہ سراسر آئین اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کا مشرف کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ تاریخی اور جمہورت کی فتح ہے۔ جمہوریت اور جمہوری نظام کے یہ فیصلہ بہترین ہے اگر کسی کو اس فیصلے سے اعتراض ہے تو وہ اسے چیلنج کرسکتے ہیں۔ سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شمیم الرحمن نے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ آئین کے آرٹیکل 6 پر عملدرآمد ہوا ہے اور سب سے طاقتور شخص پرویز مشرف پرآرٹیکل6 پرعملدرآمد سے قانون اور آئین کی بالا دستی ہوئی ہے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آئین اور قانون کے ساتھ کھڑی ہے۔پرویز مشرف کے سابق وکیل وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے نوائے وقت کو بتایا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ سراسراآئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے قانونی تقاضوںکو پورے کیے بغیر فیصلہ سنایا گیا ہے پاکستان میں کتنے ایسے مقدمات ہیں جن میں فریق کو سنے بغیر فیصلہ سنایا گیا۔ سپریم کورٹ کے سنیئرایڈووکیٹ شیخ احسن الدین نے کہا کہ 12سال چلنے والی عدلیہ تحریک کا ثمر ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کو آئین شکنی پر سزائے موت سنائی گئی ہے خصوصی عدالت کا فیصلہ جرات مندانہ ہے۔ فیصلہ جمہوری سسٹم کے لیے خوش آئند ہے۔ تحریک تحفظ عدلیہ کے چیئرمین ایڈووکیٹ حشمت حبیب نے کہا کہ فیصلہ خوش آئند ہے مستقبل میںکسی کو آئینی حدود کو عبور کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ ایڈووکیٹ توفیق آصف نے کہا کہ فیصلہ سے آئین و قانون کی جیت ہوئی ہے۔ چوہدری قمر ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا، ثابت ہوگیا کہ عدالتیں آزاد ہیں۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت نے بادی النظر میںکیس تیزی سے نمٹایا مگر دیکھا جائے تو کیس 6سال زیر سماعت رہا مشرف کو ہرطرح اپنا دفاع کرنے 342کا بیان ریکارڈ کروانے کے متعدد مواقع فراہم کیے گئے،پرویز مشرف علاج کے لیئے بیرون ملک گئے اور عدالت کے باربار طلب کرنے پر پیش نہ ہونے پر انہیں مفرور قرار دیا گیا،کیس کی آخری سماعت میں استغاثہ کو عدالت نے باربار دلائل دینے کا موقع دیامگر استغاثہ کا کہنا تھا کہ ان کی تیاری نہیں ، جبکہ مشرف کے وکلا سلمان صفدر، وکیل صفائی رضا بشیر کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے سننے سے انکار کیا کہ مشرف عدالتی مفرور ہیں انہوں نے عدالت کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلے کے خلاف تیس دن میں سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن