• news
  • image

عدلیہ نے اپنے تاریخی فیصلوں سے درحقیقت سول سپرمیسی کی بنیاد مستحکم کی ہے

آئین سے غداری کے کیس میں مشرف کو خصوصی عدالت سے موت کی سزا اور سپریم کورٹ کا آرمی چیف توسیع کیس میں مفصل فیصلہ


پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس وقار احمد کی سربراہی میں قائم خصوصی عدالت نے مشرف غداری کیس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے سابق صدر مملکت اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو آئین کی دفعہ 6(1) کے تحت آئین پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنا دی۔ فاضل خصوصی عدالت کا یہ مختصر فیصلہ بنچ کے دو فاضل ججوں کی اکثریت کے تحت صادر کیا گیا جبکہ بنچ کے ایک فاضل رکن اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس نذر محمداکبر نے اس فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ بنچ کے سربراہ جسٹس وقاراحمد نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جنرل مشرف کیلئے سزائے موت کا فیصلہ صادر کرنیوالے بنچ کے دوسرے رکن لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم ہیں۔ گزشتہ روز دوران سماعت فاضل بنچ کے روبرو استغاثہ اورصفائی دونوں جانب کے وکلاء نے کیس کی سماعت میں التواء کی کوشش کی۔ استغاثہ کی جانب سے پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ ایڈووکیٹ نے فاضل عدالت میں تین الگ الگ درخواستیں دائر کیں جن میں استدعا کی گئی کہ حکومت سنگین غداری کیس میں مزید افراد بشمول سابق وزیراعظم شوکت عزیز‘ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو بطور ملزم نامزد کرنا چاہتی ہے اور انکے علاوہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی اس کیس میں ملزم نامزد کرنا مقصود ہے جبکہ ان تمام ملزمان کا ایک ساتھ ٹرائل ہونا ضروری ہے۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں۔ جسٹس نذر اکبر نے باور کرایا کہ اب تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزرچکا‘ آپ کی مزید افراد کو بطور ملزم نامزد کرنے کی درخواست درحقیقت مشرف کی ہی دائر کردہ درخواست کا تسلسل ہے جبکہ سپریم کورٹ مشرف کی درخواست مسترد کرچکی ہے۔ فاضل ججز نے باور کرایا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے آپ کو دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی‘ اب عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ اگر اب مزید تین افراد کو ملزم بنایا گیا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئیگی۔ کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے۔ دوران سماعت جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر چارج شیٹ میں کیسے ترمیم کر سکتے ہیں۔ اس میں وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔ دوران سماعت جسٹس نذر اکبر نے پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ کو یہ بھی باور کرایا کہ آپ وہ بات کررہے ہیں جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں۔ فاضل خصوصی عدالت نے استغاثہ کی پیش کردہ تینوں نئی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیکر چار سطور پر مشتمل اپنا مختصر فیصلہ صادر کر دیا اور مشرف کو 3نومبر 2007ء کو آئین پامال کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنادی۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت انکے 3 نومبر 2007ء کے ملک میں پی سی او اور ایمرجنسی نافذ کرنے‘ آئین معطل کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حراست میں لینے کے اقدام کیخلاف میاں نوارزشریف کے دور حکومت میں آئین سے غداری کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا جس کی سماعت کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چودھری نے 20 نومبر 2013ء کو پشاور‘ سندھ اور لاہور ہائیکورٹ کے ایک ایک فاضل جج پر مشتمل خصوصی عدالت تشکیل دی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران متذکرہ عدالت کی چھ بار تشکیل نو ہوئی۔ وفاقی حکومت نے اس کیس میں سینئر قانون دان محمد اکرم شیخ کو استغاثہ کی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا جنہوں نے اپنے دلائل میں ملزم پرویز مشرف کے 3نومبر 2007ء کے اقدام کو ماورائے آئین اور دفعہ 6(1) کے تحت آئین سے غداری کا جرم قرار دیا۔ اس بنیاد پر ملزم پرویز مشرف پر 31 مارچ 2014ء کو فرد جرم عائد کی گئی جبکہ مشرف کی جانب سے میڈیکل بورڈ کا جاری کردہ انکی خرابیٔ صحت کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی گئی اور پھر ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ان کا نام نکلوا کر انکی بیرون ملک جانے کی راہ ہموار کر دی گئی۔ جب مشرف مقررہ عدالتی مہلت تک عدالت میں پیش نہ ہوئے تو 19 جون 2016ء کو انہیں مفرور قرار دے دیا گیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ بھی انہیں ملک واپس آکر اپنے کیس کا دفاع کرنے کی مہلت دیتی رہی مگر انہوں نے کسی عدالتی فیصلہ کو درخوراعتناء نہ سمجھا اور چھ سال تک اس مقدمہ کی سماعت مشرف کی عدم موجودگی میں ہوتی رہی۔ عدالت کے روبرو اس کیس کی 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں‘ خصوصی عدالت نے فیصلہ کیلئے گزشتہ ماہ 25نومبر کی تاریخ مقرر کی جس پر وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی جس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے خصوصی عدالت کو 25 نومبر کو فیصلہ جاری کرنے سے روک دیا اور مشرف کو اپنے دفاع کا موقع دے دیا۔ خصوصی عدالت نے اس بنیاد پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کی تعمیل سے معذرت کرلی کہ خصوصی عدالت صرف سپریم کورٹ کے احکام کی پابند ہے تاہم عدالت نے مشرف کو اپنے دفاع کا مزید موقع دیا اور انہیں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔ اسکے باوجود مشرف عدالت میں پیش نہ ہوئے اور انکے وکلاء انکی علالت کا جواز پیش کرتے رہے۔ مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی کارروائی کو لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا۔ انکی یہ درخواست ابھی عدالت عالیہ میں زیرسماعت ہے جبکہ خصوصی عدالت نے گزشتہ روز انہیں سزائے موت کا مستوجب قرار دے دیا ہے۔
ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ بلاشبہ تاریخ ساز ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی عدالت کو ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوری حکومت کا تختہ الٹانے والے کسی جرنیلی آمر کو اسکی زندگی میں یا اسکے جرنیلی اقتدار کے دوران آئین شکنی کی سزا دینے اور ان کا ماورائے آئین اقدام کالعدم قرار دینے کی بھی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ اسکے برعکس نظریہ ضرورت کے تحت جرنیلی آمروں کے ماورائے آئین اقدام کو درست قرار دیکر آئینی تحفظ فراہم کیا جاتا رہا۔ سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی کیس میں جنرل یحییٰ خان کو ضرور غاصب قرار دیا مگر یہ فیصلہ ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد صادر کیا گیا جس میں انہیں مستوجب سزا قرار نہ دیا گیا۔ اس تناظر میں خصوصی عدالت کی جانب سے جنرل مشرف کو دفعہ6 کے تحت آئین سے غداری کا مجرم اور سزائے موت کا مستوجب قرار دینا بلاشبہ آئین و قانون کی پاسداری‘ تحفظ اور انصاف کی عملداری یقینی بنانے کی جانب ایک سنگ میل ہے اور اس کیس کے حوالے سے یہ تلخ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ جمہوری حکومتوں کی بساط الٹانے والے جرنیلی آمروں کے اقدامات کو جمہوری حکومتوں کی جانب سے عدلیہ میں چیلنج کرنے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف مشرف کے ماورائے آئین اقدام کو چیلنج نہ کیا بلکہ ان کیخلاف اپنی قائد بے نظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج کرانے سے گریز کیا گیااور آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر اپنے ضمیر کا بوجھ اتارا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔ آج مشرف کی سزائے موت پرتبصرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے والد کا ادا کردہ یہی فقرہ دہرایا ہے۔ مشرف کی جرنیلی آمریت سے میاں نوازشریف کی حکومت براہ راست متاثر ہوئی تھی اور نوازشریف اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے مشرف کیخلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کے اعلانات بھی کرتے رہے تاہم جب انکے دور حکومت میں انکے پاس یہ موقع آیا تو انہوں نے پانچ چھ ماہ کے پس و پیش کے بعد مشرف کیخلاف آئین سے غداری کا ریفرنس انکے 12اکتوبر 1999ء والے ماورائے آئین اقدام کے بجائے انکے 3نومبر 2007ء کے اقدام کیخلاف دائر کیا جس کیلئے انکی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ مشرف کا 12اکتوبر 1999ء کا اقدام چونکہ انکی اپنی حکومت کیخلاف تھا اس لئے وہ ان سے ذاتی انتقام نہیں لینا چاہتے۔ اسی طرح غداری کیس کی سماعت کے دوران مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال کر انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی نوازشریف کے دور حکومت میں ہی دی گئی۔ اب پی ٹی آئی برسراقتدار ہے جس کے قائد عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر مشرف کیخلاف غداری کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے اعلانات کرتے رہے تاہم انکے دور حکومت میں جب خصوصی عدالت کی جانب سے کیس کے فیصلہ کی تاریخ مقرر ہوئی تو خود وزارت داخلہ نے یہ فیصلہ رکوانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ اسی طرح گزشتہ روز بھی حکومتی وکلاء کی جانب سے خصوصی عدالت کے روبرو مشرف کا دفاع کرتے ہوئے فیصلہ رکوانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اس صورتحال میں خصوصی عدالت نے مشرف غداری کیس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے انہیں سزائے موت کا مستوجب ٹھہرایا ہے تو آئین و قانون کی پاسداری کا جھنڈا بلند کرنے کا سہرا عدلیہ ہی کے سر جاتا ہے۔
اس حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ایک گزشتہ تقریر کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے جو انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو علاج معالجہ کیلئے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملنے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی تقریر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا کہ آج کی عدلیہ کا 2007ء والی عدلیہ سے موازنہ نہ کیا جائے۔ ہم نے دو سٹنگ وزرائے اعظم کو نااہل قرار دیکر گھر بھجوایا ہے اور ایک سابق جرنیلی آمر کے کیس کا فیصلہ صادر ہونیوالا ہے۔ ہمیں یہ نہ سنایا جائے کہ غریب آدمی کیلئے الگ اور امیر آدمی کیلئے الگ قانون ہے۔ اسی تناظر میں آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے روبرو کیس کی سماعت اور اسکے دوران فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس اور اب اس کیس میں سپریم کورٹ کے جاری کئے گئے تفصیلی فیصلہ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے جس میں فاضل عدالت عظمیٰ نے آئین و قانون کی پاسداری کا ہی ٹھوس عندیہ دیا اور عہد کیا ہے۔ اس فیصلہ کی روح کے مطابق آرمی چیف کے منصب کی متعینہ مدت کے بعد انکے منصب میں توسیع کی آئین میں گنجائش ہے نہ اسکی ضرورت ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے اپنے اس فیصلہ میں بے شک پارلیمنٹ کو یہ راستہ دکھایا ہے کہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع مقصود ہے تو اس کیلئے آئین کی دفعہ 243 اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلئے گنجائش نکالی جاسکتی ہے جس کیلئے حکومت کو چھ ماہ کے اندر اندر قانون سازی کا پراسس مکمل کرنا ہوگا۔ اگر اس عرصہ میں متعلقہ آئینی اور قانونی ترمیم نہ ہوسکی تو آرمی چیف چھ ماہ بعد اپنے منصب سے ریٹائر ہو جائینگے اور انکی یہ ریٹائرمنٹ انکی ریٹائرمنٹ کی اصل تاریخ 23 نومبر 2019ء سے ہی تصور کی جائیگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدلیہ اپنے نظریہ ضرورت والے ماضی کے دور کو لپیٹ کر آئین و قانون کی حکمرانی‘ اسکی پاسداری اور عملداری کے ساتھ پرعزم ہو کر کھڑی ہوگئی ہے تو عدلیہ جن کی خاطر سول سپرمیسی کو یقینی بنانے اور اس کا تحفظ و دفاع کرنے کا عندیہ دے رہی ہے‘ کیا انہیں خود بھی سول سپرمیسی عزیز ہے یا نہیں۔ اس کا اندازہ یقیناً آنیوالے دنوں میں ہو پائے گا کہ حکومت آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ اور جنرل مشرف کی سزائے موت کے حوالے سے خصوصی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔
مشرف کے پاس اپنی سزا کیخلاف مجاز اتھارٹی کے روبرو اپیل دائر کرنے کے صرف دو مواقع موجود ہیں اور وہ بھی مشروط ہیں۔ سپیشل کورٹس آرڈی ننس کی دفعہ 12 کے تحت خصوصی عدالت کے فیصلہ کیخلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوسکتی ہے اور اس میں بھی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ کے تحت متعلقہ مجرم کو پابند کیا ہے کہ وہ خود عدالت میں پیش ہو کر اپیل دائر کرینگے۔ سپریم کورٹ کے بعد مشرف کے پاس صرف صدر مملکت کے روبرو رحم کی اپیل دائر کرنے کا آپشن ہوگا اور اپیل کے ان دونوں مراحل میں مجاز اتھارٹی آئین کی دفعہ 6 ذیلی دفعہ 2۔اے کو ملحوظ خاطر رکھنے کی پابند ہوگی جس میں واضح طور پر قرار دیا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 6(1)(2) میںدرج غداری کے مستوجب کسی اقدام کو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ سمیت کوئی بھی عدالت جائز قرار دینے (ویلیڈیٹ کرنے) کی مجاز نہیں۔ اس تناظر میں مشرف کی سزائے موت انکی اپیل میں بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اب اصل امتحان خصوصی عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کا ہے۔ مشرف گزشتہ چھ سال سے ملک سے باہر ہیں اور انکی طبیعت بھی خراب ہے اس لئے انکی ملک واپسی کا امکان بہت کم ہے۔ اگر معروضی حالات میں بالفرض محال انکی سزائے موت پر عملدرآمد نہ بھی ہو پایا تو بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ آئین و قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے معاملہ میں یادگار رہے گا کیونکہ اس لئے بہرصورت آئندہ کیلئے کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت منتخب جمہوری حکومت کی بساط الٹانے کا راستہ مستقل طور پر بند ہوگیا ہے کیونکہ آئندہ جو بھی ایسا اقدام اٹھانے کا سوچے گا‘ خصوصی عدالت کا فیصلہ اسکے ضرور پیش نظر ہو گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن