بدھ‘ 20 ؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 18 ؍ دسمبر 2019ء
بالا کوٹ پر حملے کا خواب صرف فلم کے ذریعے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ میجرجنرل آصف غفور
جلتی پر تیل ڈالنا ہو یا دشمن کے زخموں پر نمک چھڑکنا۔ اس کام میں میجر جنرل آصف غفور کا کوئی توڑ نہیں۔ انہیں بھارت والوں کو رلانے میں جلانے میں کمال حاصل ہے۔ اب بالا کوٹ پر حملے کے حوالے سے انکے بیان سے بھارت کے حکمرانوں اور فوج کو جو مرچیں لگ رہی ہیں اس کا اظہار چند دنوں میں ان کی طرف سے عامیانہ بڑھک بازی سے ہو جائے گا۔ بالا کوٹ پر حملہ بھارت کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ طیارے بھی گنوائے ایک پائلٹ بھی گرفتار کرایا۔ دنیا بھر میں بدنامی بھی مول لی۔ نتیجہ کیا نکلا بالا کوٹ میں صرف چند درختوں اور ایک عدد کوے کو مارگرایا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کے برعکس اگر فلمی دنیامیں بھارت کی جھوٹی کہانیوں پر مبنی فلمیں دیکھیں تو لگتا ہے بھارتی فوج بڑی طاقتور اور دھانسو قسم کی فوج ہے جو بڑے سے بڑا کارنامہ منٹوں میں سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسی فرضی کہانیوں پر بھارت میں بے شمار فلمیں ریلیز ہوتی رہتی ہیں۔ مگر حقیقت کیا ہے۔ اس کا جواب بالا کوٹ پر حملے کے نتیجے میں بھارت جان چکا ہے۔ اب بھارت والے اس پر فلم بنائیں یا کوئی ڈرامہ اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔اس طرح بھارتی فلمساز اپنی بزدلی کو چھپانے کے لیے بہادری دکھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بھارت فلم ’’بالا کوٹ حملہ‘‘ بنانے کی بجائے زیادہ سسپنس اور تحیر سے بھرپور فلم ’’ابھی نندن کی واپسی‘‘ کے نام سے بنائے جو جیمز بانڈ کی واپسی کی طرح زیادہ تھرل ہو سکتی ہے کیونکہ طیارے کا تباہ ہونا ، پیراشوٹ سے چھلانگ لگا کر جان بچانا، پھر پاکستانی شہریوں کے ہاتھوں بے عزت ہونا مار کھانا، پاک فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونا اورواہگہ بارڈر سے شرمندہ شرمندہ واپس بھارت جانا ایک اچھی فلم کے لیے خاصہ بہتر مواد ہے۔
٭٭٭٭٭
نامکمل دستاویزات پر مراد سعید کے والد میلبورن ائیرپورٹ پر گرفتار
دوسروں سے بات بات پر حساب کتاب کرنے والے ، تین سے تیراں بجانے والے‘ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والے وزیر مواصلات اب اس بارے میں کیا کہیں گے۔ پاکستان ائیر پورٹ پر عملے نے ان کو دبنگ وزیر کا باپ جان کر اطمینان کے ساتھ نامکمل دستاویزات کے باوجود آسٹریلیا روانہ کر دیا مگر یہ بات بھول گئے کہ وہاں کوئی بھی کسی وزیر کا باپ ہونے کی نسبت سے رعایت نہیں کرتا۔ اس لیے میلبورن ائیر پورٹ پر انہیں پولیس نے پکڑ لیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے وہ سٹوڈنٹ ویزے پر آسٹریلیا آئے تھے۔ لگتا ہے انہیں اب بھی پڑھنے کا شوق ہے۔ محترم اس وقت خاصے نہیں تو کم از کم بزرگ ضرور ہوں گے۔ مگر ابھی تک کہیں نہیں سُنا گیا کہ آسٹریلیا میں تعلیم بالغاں کا کوئی مفت پروگرام چل رہا ہے تو پھر وہ کیوں سٹوڈنٹ ویزے پر وہاں جا رہے تھے۔ تعلیم بالغاں کا سیاپا تو بھٹو دور میں زور و شور سے اٹھا تھا۔ وہ تو اب پاکستان میں بھی دم توڑ چکا ہے۔ اب محترم کی عمر بھی ایسی نہیں کہ عام تعلیمی پروگرام میں شرکت کے لیے آسٹریلیا جا رہے ہوں۔ وہ متمول شخص ہیں سیر کرنا تھی یا کاروبار ۔تو سیدھے سبھائو عام ویزا لے کر جاتے مگر شاید وہ ’’اقامہ‘‘ والے معاملات کے خوف سے ایسا نہیں کر رہے کہ کل کو کسی اور ملک میں کاروبار کرنے پر مورد الزام نہ ہوں۔ اس لیے سٹوڈنٹس ویزے سے کام لینے کا سوچا مگر یہ بھی گلے پڑ گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے ہمارے خیبر پی کے والے شیریں مقال وزیر مواصلات اس بارے میں کیسا زور دار بیان جاری کرتے ہیں۔ ان کی قومی اسمبلی میں گرما گرم تقاریر کی گونج چارسو پھیلی ہوئی ہے۔ اب اس بارے میں ان کا زور بیاں بھی دیکھے جانے کے لائق ہو گا۔
٭٭٭٭٭
مودی ابھی تو منہ کے بل گرے ہو آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔ مشعال ملک
گزشتہ د نوں بھارتی وزیراعظم گنگا گھاٹ پر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے منہ کے بل گرے۔ اسے منہ کی کھانا بھی کہہ سکتے ہیں۔ راسخ العقیدہ ہندو اسے گنگا شراپ بھی کہہ رہے ہیں کیونکہ مودی کی غیر انسانی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں جو دنگا فساد برپا ہے اس وجہ سے لگتا ہے گنگا میّا بھی اس موذی سے ناراض ہے۔ برسوں پہلے شاعر نے …؎
رام تیری گنگا میلی ہو گئی
پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے
کہہ کر گنگا کا دکھ بیان کیا تھا۔ اب مودی جیسے موذی کو دیکھ کر گنگا میں آگ نہیں بھڑکے گی تو اور کیا ہو گا ۔ پورے بھارت میں کشمیر سے لے کر آسام تک علیحدگی کی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت کے اقلیتی عوام حکومت کی ناانصافیوںسے عاجز آچکے ہیں۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ ابھی مودی کو صرف ٹھوکر لگی ہے۔ اگر اس نے اپنا ہٹلر والا رویہ نہیں بدلا تو پھر حقیقت میں مشعال ملک کے مطابق منہ کے بل گرنے والے کو آگے ناجانے کہاں کہاں گرنا ہو گا۔ ابھی تو محافظوں نے اسے اٹھا لیا اگلی بار معلوم نہیں وہ بچ پائیں گے یا نہیں…سارا ہندوستان مودی کی انتہا پرست پالیسیوں کی وجہ سے شمشان گھاٹ بن چکا ہے۔ مسلم اورعیسائی خاص طور پر حکومت کے نشانے پر ہیں۔ ان سے مذہبی آزادی چھینی جا رہی ہے۔ ان کے حقوق عضب کئے جا رہے ہیں۔ ہنسا کے نام پر آہنسا کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں سے لے کر تجارتی مراکز اور گھروں تک کونشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی آہ نے سنجے گاندھی کو۔ سکھوں کی آہ نے اندرا گاندھی کو اور تاملوں کی آہ نے راجیو گاندھی کو نہیں چھوڑا تو اب ان سب کی آہوں سے مودی کیسے بچ پائے گا جس کے پاپوں کا گھڑا تیزی سے بھرتا جا رہا ہے۔ ہندو دھرم کے ویدوں کے انوسار جب یہ گھڑا بھرتا ہے تو جلد ہی پھوٹ بھی جاتا ہے۔ اس لیے مودی بھی منہ کے بل گرنے کے اشارے کو سمجھ لیں اور ناانصافی چھوڑ دیں۔