دہشتگردی کا دوسرا نام عسکریت پسندی، ملک میں غیر یقینی کی فضا قائم کرنیوالے بھی دہشتگرد ہوتے ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی میں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی نظریات جیسے 3 پہلو ہیں۔ پچھلے دو ہزار سال سے دہشتگردی کا مسئلہ چل رہا ہے، پوری دنیا دہشتگردی کے مسائل سے لڑ رہی ہے۔ عسکریت پسندی اور دہشتگردی کے حوالے سے کچھ دن پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ججز سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کاکہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں بہت سی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام ٹرائبل علاقوں میں اچھے ججز اور پولیس افسران تعینات کیئے گئے ہیں میں بہت خوش ہوں کہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی بہت اچھا کام کر رہی ہے ججز کی تربیت کے ساتھ ساتھ نوجوان وکلاء کی بھی تربیت یہاں ہو رہی ہے اب یہاں ریسرچ سٹڈی پر بھی کام جاری ہے۔ ریسرچ کے ذریعے ہی کوئی بھی معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ ریسرچ ہمارے معاشرے کے مستقبل کیلئے بہت اہم ہے اگر ایک جج ریسرچ پر کام کرے تو وہ زیادہ بہتر کام کر سکتا ہے اور اپنے آئیڈیاز کو الفاظ کی شکل دے سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال سے دوسرے ریسرچ سائیکل میں لوگوں کو جا کر ان کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہیئے25ویں آئینی ترمیم کے بعد میں نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو ان کے سب سے اچھے ججز وہاں تعینات کرنے کا کہا یہی بات میں نے انسپکٹر جنرل خیبر پی کے کو بھی کہی کہ اپنے سب سے بہترین افسران وہاں تعینات کریں تاکہ لوگ اس سسٹم کو ویلکم کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا دوسرا نام عسکریت پسندی ہے۔ دہشت گرد تشدد کے ذریعے اپنے نظریات کو لاگو اور ریاستی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں، جبکہ ملک میں غیر یقینی کی فضا قائم کرنے والے بھی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ افغان طالبان جب روس کیخلاف لڑرہے تھے تو وہ مجاہدین تھے، امریکی قابض افواج کیخلاف جب یہ مجاہدین لڑے تو دہشت گرد قرار دیئے گئے، اس تاریخی تناظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی آج کا نہیں پرانا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے حکومت کو مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔