اداروں میں فاصلے بڑھ گئے‘ مسلم لیگ (ن) مصلحتاً خاموش
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ ریاستی اداروں کے درمیان فاصلوں کا باعث بن گیا۔ اداروں میں کشیدگی نمایاں نظر آ رہی ہے۔ وفاقی حکومت جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کے بارے میں’’گو مگو‘‘ کی کیفیت میں مبتلا تھی، سابق صدر پرویز مشرف کو موت کی صورت میں انہیں گھسیٹ کر تین دن تک ڈی چوک میں لٹکائے جانے کے پیرا 66نے وفاقی حکومت کو بھی ایک’’پوزیشن‘‘ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن ان کو زمینی حقائق سے اپنے موقف میں تبدیلی لانا پڑی۔ اپوزیشن کی بیشتر جماعتیں بھی مصلحتوں پر مبنی بیانات دے رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے دور میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا نے مصلحتاً خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کا فیصلہ سیاسی، قانونی و عسکری حلقوں کے لئے حیران کن تھا۔ اس فیصلے کے بعد فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک مختصر لیکن جامع پریس کانفرنس کی۔ فوج کھل کر جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے جس میں انہوں نے خصوصی عدالت کے سربراہ کی جانب سے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی لاش کو تین روز تک ڈی چوک میں لٹکانے کے بارے میں فوج کے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ’’ملک کا دفاع بھی جانتے ہیں اور ادارے کے وقار کا دفاع بھی، اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ناکام کریں گے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ چوتھے جج ہیں جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہوا۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے ریفرنس دائر ہونے پر استعفا دے دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما و ماہر قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر سزائے موت کے خلاف ہوں، جس جج نے یہ فیصلہ دیا ہے اس کے خلاف آرٹیکل211کے تحت دیکھنا چاہیے کہ ان کا دماغی توازن درست بھی ہے یا نہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں کوئی تبصرہ سے گریزاں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف دیئے جانے والے عدالتی فیصلے کو پڑھا نہیں ہے اس لئے اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا ہوں، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدالتی فیصلے کی بابت بتایا گیا ہے؟ تو انہوں نے یہ کہہ کر سوال ٹال دیا کہ ان کے ٹیسٹ تھے اس لیے وقت نہیں ملا۔