مشرف کو 5 بار سزائے موت دی جائے: تفصیلی فیصلہ، استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا: جسٹس نذر
اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان/نمائندہ نوائے وقت) خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کیس میںسابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلے میںسنائی گئی۔ سزائے موت کو تفصیلی فیصلے میں 5مرتبہ سزائے موت میں تبدیل کر دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف پھانسی سے پہلے انتقال کر گئے تو مجرم کی لاش ڈی چوک اسلام آباد لائی جائے اور 3دن تک لٹکایا جائے، پرویز مشرف کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے پہلے قانون کے مطابق پہلی گرفتاری دینی پڑے گی جن لوگوں نے پرویز مشرف کو بیرون ملک فرار ہونے میں مدد دی ان کے خلاف بھی قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے، پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا پر ہر صورت عملدرآمد کرایا جائے، قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرکے لائیں تاکہ سزا پر عملدر آمد کرایا جا سکے، پرویز مشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں‘ سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا، آرٹیکل 6آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست، شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل، وزارت داخلہ کے نمائندے کو تحریری فیصلے کی کاپی فراہم کر دی گئی ‘پیرا گراف 66 نے سب کو ہلا کے رکھ دیا۔ جبکہ اختلافی نوٹ میںجسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات ثابت نہیں ہوتے۔ جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت کے سربراہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس شیخ وقاراحمد سیٹھ نے سخت ترین آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک گھسیٹ کر لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے، بنچ کے ایک رکن لاہو رہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار احمد سیٹھ سے اس بات پر اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو سزائے موت کے حق میں ہیں تاہم فاضل جسٹس وقار سیٹھ کی اس آبزرویشن سے متفق نہیں ہیں، بنچ کے تیسرے رکن سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر نے دونوں فاضل ججز سے اختلاف کرتے ہوئے پرویز مشرف کو بے گناہ قرار دیا اور مقدمے سے بری کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ169صفحات پر مشتمل ہے، دو ججز جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو قصور وار قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی 25صفحات تحریر کیئے جبکہ جسٹس نذراکبر نے سزائے موت کی مخالت کرتے ہوئے44صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 مرتبہ سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، ہر جرم پر ایک بار سزائے موت دی جائے، عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرونِ ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا ہے، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، کور کمانڈرز اس میں ملوث نہیں تھے تو انہوں نے ایک شخص کو غیر آئینی اقدام سے کیوں نہیں روکا؟پاک فوج کے حلف میں انہیں سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کا کہا گیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جمع کرائے گئی دستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات بغیر کسی شک و شبے کے ثابت ہوتے ہیں، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کر کے لائیں تاکہ سزا پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والے کا مقابلہ کرتا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری رائے ہے کہ سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا، آئین کے تحفظ کا مقدمہ 6 سال پہلے 2013ء میں شروع ہوکر 2019ء میں اختتام پذیر ہوا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو آئین پامال کیا، خصوصی عدالت 20 نومبر 2013ء کو قائم کی گئی، 31مارچ 2014 ء کو عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی،فیصلے کے مطابق خصوصی عدالت نے 19 جون 2016ء کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا، خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے، استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے،جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں پرویز مشرف کو بری کر دیا ہے، جسٹس نذر اکبر نے اپنے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، میں نے ادب سے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھا ہے، اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جسٹس نذر اکبر کے اختلافی نوٹ کے مطابق استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، خلاف آئین حلف نہ لینے پر سپریم کورٹ کے 15اور ہائیکورٹس کے 56ججزبرطرف کر دیئے گئے۔ جسٹس نذر اکبر نے پرویز مشرف کو بری کیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ مجرم سابق صدر پرویز مشرف کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے پہلے قانون کے مطابق پہلی گرفتاری دینی پڑے گی، جس کے بعد وہ اپیل دائر کرنے کے اہل ہوں گے۔ خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف کو گرفتار کیا جائے جبکہ سابق صدر کی پھانسی کی سزا پر ہر صورت عملدرآمد کرایا جائے۔ فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ سابق صدر کے آئین سے سنگین غداری کے عمل میں شریک افراد کے خلاف کاروائی کی جائے اور پرویز مشرف کو پاکستان سے فرار کرانے والوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے، جسٹس نذر اکبر کا نوٹ میں کہنا ہے کہ میں ادب کے ساتھ صدرِ عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں، پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا، اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007ء کا اقدام تھا، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، ایک بھی رکنِ پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی، قومی اسمبلی نے 7 نومبر 2007ء کو اپنی قرار داد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سارے پارلیمنٹیرین وکلاء تھے، وہ وکلاء تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لاسکے، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 99ء کی ایمرجنسی کی توثیق نظریہ ضرورت کے تحت کی، اس وقت پارلیمنٹ نے 17ویں ترمیم کے ذریعے مجرم کو سہولت دی، پھر 18 ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 میں ترمیم کی گئی، 18ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے7 نومبر 2007ء کی قومی اسمبلی کی قرارداد کی توثیق کی، جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں غداری کی تعریف کے حوالے سے بلیکس لاء ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا، اختلافی نوٹ کے مطابق 18ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام سنگین غداری نہیں تھا، 18ویں آئینی ترمیم منظور کرتے وقت زیادہ تر پارلیمنٹیرین وہی تھے جو 17 ویں آئینی ترمیم کے وقت تھے، پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6 میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نے سنگین غداری کے جرم میں ترمیم کر کے دانستہ طور پر 3 نومبر 2007ء کے اقدام کی توثیق کی، جسٹس نذر اکبر کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج کا ہر سپاہی آئینِ پاکستان کی پاسداری کا پابند ہے، آئین توڑنے والے جنرل کا ساتھ دینے والی ہائی کمان آئین کے تحفظ میں ناکام رہی، جنرل مشرف فضاء میں تھے، ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔ عدالت کا تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا ہے اور اس میں ان کے ساتھ جسٹس شاہد کریم نے معاونت کی،تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا، جس میں مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں 'ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے' کا ذکر کیا گیا، جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ میں جناب صدر (سربراہ بینچ) اس کی قانون میں کوئی بنیاد نہیں اور ایسا کرنے سے اس عدالت کے لیے منفی تاثر جائے گا، میرے خیال میں یہ کافی ہے کہ مجرم کو سزائے موت دی جائے۔
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت) سنگین غداری کیس میںجسٹس نذر اکبر نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ پراسیکوشن پرویز مشرف کے خلاف اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ خصوصی عدالت کے جج جسٹس نذر اکبر پرویز مشرف کی سزا موت کے فیصلے سے اختلاف کیا 44 صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ تین نومبر دو ہزار سات کے سیاسی اقدامات اس وقت کی سول حکومت کی جانب سے کئے گئے۔ پرویز مشرف بیک وقت میں ملک کے صدر اور فوج کے سر برا ہ بھی تھے۔ تین نومبر 2007 کو شوکت عزیز چیف ایگزیکٹو تھے اس وقت کے انتظامی اختیارات کو پارلیمنٹ کی معاونت بھی حاصل تھی۔ دستیاب شواہد پرویز مشرف کو سزا سنانے کیلئے کافی نہیں وزارت داخلہ پرویز مشرف کے خلاف قانون کے مطابق غیر جانبدار تحقیقات نہ کر سکی جسٹس نذر اکبر نے فیصلہ میں مزید کہا ہے کہ تین نومبر کی ایمر جنسی غیر قانونی، غیر آئینی ہو سکتی ہے۔ تین نومبر کے ایمر جنسی پر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے تاہم اگر آئینی شکنی کے سزا ہی بھی تو اسے قانون اور شواہد کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ شواہد کی عدم موجودگی میں تین نومبر کے اقدامات کو سنگین غدار ی نہیں کہا جا سکتا۔ ججز کو حراست میں لینے پر پرویز مشرف چار عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ ججز بحالی کیلئے اسلام آباد آنے والے مارچ کو روکنے کیلئے کال کس نے کی اسکا فیصلہ کا ہونا ہے تاہم ججز بحالی مارچ روکنے والی فون کال صدر اور وزیر اعظم کی جانب سے نہیں کی گئی معاملہ پر مزید بات نہیں کروں گا۔ جسٹس نذر اکبر نے فیصلہ دیا ہے کہ پراسیکوشن اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔