پیرا 66 لکھنے والے جج کا دماغ توازن خراب ہے: اٹارنی جنرل
اسلام آباد (نیٹ نیوز) اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے تفصیلی فیصلے کا یپیرا 66 لکھنے والے جج کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، ایسے شخص کو کسی بھی صورت میں جج نہیں رہنا چاہیے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے پر نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلہ غیرآئینی، غیر اخلاقی، غیرانسانی ہے۔ اور ایسے فرد کی جانب سے دیا گیا جس کی سنجیدگی پر سوال اٹھتا ہے۔ واضح رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/ مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ کسی صورت قبول نہیں۔ متعقلہ جج کا معاملہ انکوائری کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جج کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور میں ان کے خلاف فوری ایکشن لوں گا۔ انور منصور خان نے کہا کہ صدر ہو یا نہ یہ انتہائی اہم سوال ہے کہ کوئی بھی شخص سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوانے کے لیے درخواست دینی پڑے گی اور قانون اجازت دیتا ہے کہ ہم درخواست دیں اور میں اس درخواست کو دائر کرنے کا طریقہ کار طے کروں گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس فیصلے سے نظر آرہا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی اور انتقام کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ بلکہ فیصلے کے پیرا 56 میں ادارے پر بھی چوٹ کی گئی ہے کہ فوج نے حلف لیا ہوا ہے اور یہ حلف کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فیصلے میں فوج پر حملہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی جج بن گئے جن کی اہلیت اور علم پر سنجیدہ سوالات ہیں۔ آگ سے کھیلنے کے شوقین حضرات کو علم ہی نہیں کہ جل بھی سکتے ہیں، نہ لفظ چننے کی اہلیت ہے نہ بیان کا سلیقہ، یہ ریت نئی نہیں ہے لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔