جسٹس وقار کا کنڈکٹ جج کے منافی، مشرف کی سزا پر عملدرآمد کا طریقہ غیر انسانی، وحشاینہ: اڈیشنل اٹارنی جنرل
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے اٹارنی جنرل پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنسن سے خطاب میں کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنی آبزرویشن اور فیصلوں کے حوالے سے شعرانہ جج تصور ہوتے ہیں، انہوں نے بطور جج 55 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا۔آصف سعید کھوسہ نے بطور جج سپریم کورٹ فوجداری مقدمات کے 10 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے کیے۔ جسٹس کھوسہ نے جھوٹی ضمانت، جھوٹی گواہی، جعلی دستاویزات اور جعلی ثبوتوں کے حوالے سے اہم فیصلے کیے۔ بدقسمتی سے خصوصی عدالت کے حالیہ فیصلے میں جسٹس کھوسہ کے وضع کردہ قانونی اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ خصوصی عدالت جسٹس وقار احمد سیٹھ کا فیصلہ تعصب اور بدلے کا اظہار کرتا ہے۔ جسٹس وقار کی جانب سے سزا پر عملدرآمد کا طریقہ غیر قانونی، غیر انسانی، وحشیانہ اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ فیصلہ کرمنل جسٹس سسٹم کی روایات سے بھی متصادم ہے۔ ان کا کنڈکٹ اعلٰی عدلیہ کے جج کے کنڈکٹ کے منافی ہے۔ بوجھل دل سے کہتا ہوں کہ جسٹس کھوسہ نے صحافیوں سے گفتگو میں خصوصی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی۔ انہوں نے ایسے وقت میں فیصلے کی حمایت کی جب تفصیلی فیصلہ آنا باقی تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا دہشتگردی کی تعریف کے حوالے سے جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں بینچ کا فیصلہ مستقبل میں رہنمائی کرے گا۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مقدمے میں اہم آبرویشنز دی گئیں۔ دوسری طرف ایڈیشنل ججز کے ایک ایسے ہی کیس میں ایڈہاک ججز کو توسیع دی گئی۔ عدالت سے درخواست ہے کے اعلیٰ آئینی دفاتر کے حقوق اور ذمہ داریوں سے متعلق مقدمات میں غیر ضروری جلدبازی کے بجائے صبر سے سنا جائے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار امجد شاہ نے ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کے ساتھ ان کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کی بھرپور مخالفت کریں گے،سپریم کورٹ اس فیصلے کا قانونی جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس نے بطور جج اور چیف جسٹس کے فیصلوں کو عدلیہ کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا،چیف جسٹس نے آرٹیکل 184/3 کے تحت ازخود نوٹس کی صحیح معنوں میں حوصلہ شکنی کی،کئی اہم تاریخی مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ ہونا ایک المیہ ہے،محفوظ شدہ فیصلوں کے بغیر کسی تاخیر کے سنایا جانا چاہیے،بار نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کیا،المیہ ہے کہ ملکی عدلیہ کو ایگزیکٹیو کی جانب سے اکثر دباو کا سامنا رہا،جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کی سختی سے مذمت کرتے ہیں،اس ریفرنس کو خارج کرنے کا مطالبہ کرتی ہے،فل کورٹ ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسی چھٹی پر ہونے جبکہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہونے کے سبب شامل نہ ہو سکے۔علاوہ ازیں ریفرنس میں سپریم کورٹ ججزوائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک کے علاوہ وکلا برادری کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔