سوچئے‘ پلیز
الزامات اور طعن و تشنیع کی دین اسلام میں سخت ممانت آئی ہے۔ ایک طرح کا کارِ بیکار، جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ آپ اپنی توانائیاں بیکار میں ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست کا بھی یہی چلن ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن، مگر حکومت اور اپوزیشن کے مابین الزامات کی بارش۔ کبھی مائنس ون اور ٹوکی تکرار تو کبھی ان ہاؤس تبدیلی کی۔ اور کبھی ایسے وزیراعظم کی خواہش جو تین مہینے کیلئے آئے اور انتخابات کروانے اور اقتدار اپوزیشن کو سپرد کر کے چلا جائے۔ اور کبھی دھرنے والوں کے یہ فتوے کہ ہم نے حکمرانوں کی گردن سے سریا نکال دیا ہے۔ جو اب آں غزل میں سرکار کے کارندے بھی غضب کا مصرعہ اٹھاتے ہیں۔ کسی کا تجزیہ ہے کہ JOi چیف کی کیا اوقات؟ عمران خان اور پاکستان تو لازم و ملزوم ہیں، کوئی سندھ میں گورنر راج کے خواب پر شاداں‘ تو کوئی دوسروں کی حب الوطنی کے بارے میں تفکر۔ ایسے میں کفر اور غداری کے فتوے باٹنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
گویا بگاڑ انتہا کو پہنچ چکا اور خلق خدا کی مایوسی بھی۔ خدارا رویہ بدلیئے۔ لفظوں کی لایعنی گولہ باری بند کیجئے۔ لاچار و مجبور کروڑوں پاکستانیوں کا سوچئے اور انکے لئے کچھ کیجئے۔ پیشتراسکے کہ دیر ہو جائے۔