ریاض بھائی کے پیر صاحب کی فرمائش
چند روز قبل ریاض بھائی سے اچانک ملنے کا اتفاق ہُوا۔ سلام دعا کے بعد اہلِ خانہ اور گھریلو حالات کے بارے میں گفتگو ہونے لگی ۔ وہ کچھ ہفتے پہلے ہماری گلی سے رہائش گاہ چھوڑ کر تین گلیاں آگے شفٹ ہونے کے بعد پیش آنے والے واقعات بارے بتانے لگے ۔ ریاض بھائی کریانے کی دکان بھی شروع کر چکے ہیں، اس کی مصروفیات بھی بیان کرتے رہے ۔ سب سے اہم بات اُن کے نزدیک یہ تھی کہ اُن کے پیر صاحب نے انہیں پچھلے دنوں خود حاضری کا حکم دیا ہے ۔ وہ اپنے پیر صاحب کو بہت پہنچی ہوئی شخصیت مانتے ہیں ۔ پیر صاحب کا آستانہ ڈیڑھ سو کلومیٹر دُور ہے ۔ اس لئے وہ دو یا تین ماہ بعد قدم بوسی اور حاضری کے لئے جاتے ہیں۔ البتہ ٹیلیفون پر ایک ماہ کے دوران دو تین بار بات ہو جاتی ہے۔ ریاض بھائی نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے پیر صاحب سے بات ہوئی تو مہنگائی کے ساتھ ڈرائی فروٹ کی بھی بات ہوئی ۔ جب تین سے چالیس فیصد نرخ بڑھنے کا ذکر ہُوا تو پوچھا گیا کہ چلغوزے کا بھائو کیا ہے۔ ریاض بھائی نے بتایا کہ حقیقت میں چلغوزے کا ریٹ آسمانوں کو چھو رہا ہے ۔ ہزاروں میں کوئی کوئی چلغوزے خریدنے کی ہمت کرتا ہے۔ پیر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ ریاض!جو لوگ اپنے پیاروں اور محبوب کو خوش کرتے ہیں، وہ قربانیاں بھی دیتے ہیں۔ محض باتیں نہیں کرتے، عمل بھی کرتے ہیں، چاہے جس قدر بھی مشکلات پیش آئیں۔ ریاض بھائی نے ہمیں بتایا کہ اسے آپ میرا امتحان کہ لیں یا کچھ اور ۔۔۔۔۔پیر صاحب کی محبت او ر مہربانی ہے کہ انہوں نے مجھے چلغوزے پیش کرنے کا اشارہ کیا ہے ۔ اب تو میرا فرض ہے کہ اپنی قربانی پیش کروں۔ دکان داری تو پہلے مندے میں جا رہی ہے ۔ ایک سال میں کافی رقم ادھار لے کر ضروری اشیاء خرید رہا ہوں ۔ بیٹی کے جہیز کے لئے بیگم صاحبہ نے کچھ رقم اکٹھی کر رکھی تھی۔ ہم نے بیٹی کی شادی کو اگلے سال تک موخر کر دیا ہے، جو رقم دستیاب ہے ، وہ کم ہے کیونکہ پیر صاحب کے گھرانے کے لئے کم از کم دس کلو چلغوزے تو ضروری ہیں۔ ایک رشتہ دار سے بات ہوئی ہے، اس نے حامی بھری تو میں اس سے ملنے جا رہا ہوں۔ دو گلیاں چھوڑ کر اس کا گھر ہے ۔دعا کریں کہ وہ زیادہ رقم ادھار دے دے تا کہ پیر صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کے لئے گرم کپڑوں کا تحفہ بھی لے جائوں۔
ہم نے ریاض بھائی سے کہا کہ پیر صاحب کو چلغوزے وغیرہ تو پہنچا دیں گے مگر آپ کے بیٹی کے جہیز کے لئے جو رقم جمع کی تھی وہ خر چ ہو گئی تو بیٹی کا جہیز کیسے تیار کریں گے ۔ وہ ایکدم جوش سے بولے، اس کا انتظام ہو جائیگا کہ ہماری توقع سے بڑھ کر ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ پیر صاحب خوش ہو کر دعا دیں گے تو سارے کام آسانی سے ہو جائیں گے ۔ وہ اس معاملے میں بہت مطمئن تھے ۔ ہم دونوں آہستہ آہستہ پید ل چلتے جا رہے تھے اور میں ان کی باتیں سُن کر حیران ہو رہا تھا کہ وہ کس قدر پختہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیر صاحب کو خوش کرنے کے لئے بیٹی کے جہیز کی رقم خرچ کرنے جا رہے ہیں۔ اچانک ایک طرف سے بلیوں کے آپس میں الجھنے اور غراّنے کی آواز آئی اور پھر ایک کالی بلی ہمارے سامنے سے بھاگتی ہوئی چلی گئی اس کے پیچھے ایک سفید اور گرے رنگ کی بلّی بھی تھی ۔ ریاض بھائی ایک دم ٹھٹھک کر رک گئے ۔ چند سیکنڈ خاموش رہے ، پھر گویاہوئے ’’یہ کیا ہو گیا۔بدشگونی ہو گئی، بہت بُرا ہوگیا ‘‘ کالی بلی راستہ کاٹ کر چلی گئی ۔ اب تو میں اپنے کام کے لئے آگے نہیں جا سکتا ۔ مجھے واپس جانا ہو گا ۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلنے لگے ۔ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا ۔ یوں کہہ لیجئے کہ میں حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے ان کے ساتھ واپس چل رہا تھا۔
اکیسویں صدی اور لاہور شہر میں ایک جہاں دیدہ اور سمجھ دار شخص کو رخصت کر کے بھی میری حیرانی اور حیرت کم نہ ہو سکی ۔ پیر پرستی اور صعیف الاعتقادی کی مثال میرے سامنے تھی ۔ موجودہ دَور میں بیٹیوں کی شادی بذات خود بہت بڑا امتحان ہے ۔ جہیز کی تیاری کر تے کرتے فکر اور پریشانی سے والدین دیکھتے ہی دیکھتے قبل از وقت بہت بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔ اس ماحول میں اگر ایک باپ اپنے پیر صاحب کے اشارے پر بیٹی کے جہیز کے لئے جمع کی ہوئی رقم خرچ کر کے مزید قرض کے لئے جھولی پھیلاتا ہے تو ایسی سوچ پر کیا تبصرہ ہوسکتا ہے ۔ پیر صاحب کی چلغوزے کھانے کی فرمائش تو پوری ہوجائے گی لیکن بیٹی کے جہیز کی خریداری کے لئے رقم کہاں سے ملے گی؟ اس بات کی اُس باپ کو پروا نہیں ، اُسے یقین ہے کہ جب پیر صاحب خوش ہوکر دعا دیں گے تو اُس کے سارے کام آسانی سے ہوجائیں گے۔ اس بات کو ضعیف الاعتقادی نہیں تو کیا کہا جائیگا؟ تو ہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کے مارے ہوئے لوگ اس چکر میں پھنس کر اپنی زندگی کی آسانیاں اور راحتیں چھوٹے اور خود ساختہ پیروں فقیروں کی نذر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ اس سوچ کے حامل افراد کی ہمار ے معاشرے میں کمی نہیں۔
دراصل ہمارے معاشرے اور زندگی میں یہ مرض ہندوئوں سے شامل ہُوا ہے۔ بھارت کے ایک شہر میں دو تین سال تک مختلف بیماریاں عام ہو گئیں۔ ان وبائی بیماریوں سے نجات کے لئے لوگ مختلف بھگوانوں کو ماتھا ٹیکتے رہے، نذرانے پیش کرنے کے باوجود لوگوں کو بیماریوں سے نجات نہ ملی تو لوگ مایوس ہونے لگے۔ اسی دوران ایک دو صدی پرانے درخت سے شفا ملنے کا جادوائی سلسلہ شروع ہُوا۔ لوگ اس درخت کی پوجا کرنے لگے ۔ مندروں سے زیادہ اس درخت کے گرد ہجوم رہنے لگا۔ لوگ پوجا کرنے کے بعد درخت کی جڑیں، پتے ، پھول ، پھل اور دیگر اشیائے لے جاکر ’’سیانے لوگوں‘‘کی ہدایت کے مطابق استعمال کرتے ہیں تو وہ ان کی بیماری ختم ہونے لگتی ہے۔ اس درخت کی جادوائی شفاء کے بڑے چرچے ہیں۔ روزانہ ہزاروں لوگ حاضری دے کر شفاء حاصل کر رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ لوگوں کے ہجوم پر قابو پانے کے لئے پولیس کی نفری باقاعدہ تعینات کر دی گئی ہے ۔ عقید تمندوں نے درخت کو خدا ماننے کا ایسا سلسلہ شروع کیا ہے کہ دوسرے شہروں اور قصبات سے بھی لوگ آتے ہیں۔ عقل حیران ہے یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔