بھارت: احتجاج جاری، امریکہ، جنوبی افریقہ، دبئی میں بھی مظاہرے، یونیورسٹی طالبہ کا گولڈ میڈل لینے سے انکار
نئی دہلی ، حیدرآباد (آئی این پی، نوائے وقت رپورٹ ) بھارت میں متنازعہ شہریت قانون کیخلاف جاری احتجاج دنیا بھر میں پھیلنے لگا، امریکہ، جنوبی افریقہ اور دبئی میں بھی مظاہرے کئے گئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی مختلف عوامی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سٹوڈنٹز طلبا یونین اور مختلف طلبا تنظیموں کے زیر اہتمام احتجاجی جلسے میں ملک کی متعدد یونیورسٹیز جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو، ایچ سی یو، مانو، جے این ٹی یو اور ایفلو کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ ساوتھ ایشین وائرکے مطابق مظاہرے میں شامل طلبا نے سی اے اے کے نفاذ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی ایک بار پھر بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران اے ایم یو انتظامیہ اور پولیس کے خلاف طلبہ نے صدر جمہوریہ کے نام سی او (سول لائن) انیل سمانی کو میمورنڈم بھی سونپا۔ طلبہ و طالبات نے مرکزی و ریاستی حکومت کے ساتھ ہی شیخ الجامعہ طارق منصور اور رجسٹرار عبدالحمید اور اتر پردیش پولیس کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ طلبہ نے موجودہ وائس چانسلر اور رجسٹرار کو 'سابق وائس چانسلر اور رجسٹرار' کے استعفی کا مطالبہ کیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے حکومتی کریک ڈائون کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی حکام کو متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف غیر ضروری مہلک طاقت کا استعمال بند کرنا چاہئے۔ 12 دسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جب سے احتجاج شروع ہوا ہے، کم از کم 25 افراد ہلاک اورسینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تمام اموات حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہوئی ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرے مودی حکومت کیلیے بڑا چیلنج بن گئے، دہلی میں منڈی ہاؤس سے جنتر منتر تک احتجاجی مارچ کیا جا رہا ہے۔ جہاں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی گئی، مغربی بنگال میں وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج میں شرکت کی۔ مغربی بنگال میں طلباء نے گورنر جگدیپ دھان کھر کے قافلے کو روک دیا جو جادیو پور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ مغربی بنگال میں وزیراعلیٰ ممتابینرجی بھی متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئیں۔ کانگریس رہنما راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی نے مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے ملاقات کی۔ مزید برآں بھارت میں منظور کیے گئے شہریت کے کالے قانون کے خلاف ملک سے شروع ہونے والے مظاہرے دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مسلم مخالف شہریت قانون پر احتجاج بھارت سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلنے لگا، دبئی میں کالے قانون کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ عوام نے آرایس ایس اور مودی سرکارکے خلاف نعرے لگائے۔ امریکہ میں بھی کالے قانون کیخلاف مظاہرہ کیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں بھی شہری سٹیزن شپ ایکٹ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، جوہانسبرگ میں بھارتی قونصل خانے کے باہر احتجاج کیا گیا، پلے کارڈز اٹھائے مظاہرین نے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا مطالبہ کیا۔ شہری فاطمہ لہر، اقبال جسات کا کہنا ہے کہ بھارت میں کالے قانون کے منظور کیے جانے کے خلاف عوام سے یکجہتی کے لیے نکلے ہیں، وزیراعظم کالے قانون کو واپس لیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے مودی سرکار پر زور دیا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے اور متنازع شہریت قانون کو ختم کیا جائے جو عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ ان میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ مودی حکومت نے مظاہرین بشمول طلبہ کے خلاف طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا۔ بھارتی حکومت احتجاج کو کچلنے کے لیے دور غلامی کے قانون کا سہارا لے رہی ہے، انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کردی گئی۔ بعدازاں مسلم مخالف شہریت کے قانون کیخلاف احتجاج اور مسلمان ہونے کی وجہ سے کانووکیشن سے نکالنے پر ایک طالبہ نے یونیورسٹی کا گولڈ میڈل ٹھکرا دیا۔ ربیعہ عبدالکریم نے پانڈچیری یونیورسٹی سے گزشتہ برس ذرائع ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اورگولڈ میڈل اپنے نام کیا۔بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست تامل ناڈوکے شہر پانڈچیری کی ایک یونیورسٹی میں 27 ویں کونووکیشن کی تقریب کے دوران کیرلا سے تعلق رکھنے والی گولڈ میڈلسٹ طالبہ ربیعہ عبدالرحیم کو بھارتی صدر رام ناتھ کووند کی آمد سے قبل ہی پولیس نے تقریب سے باہر نکال دیا۔ ربیعہ کا کہنا ہے کہ انہیں دیگر طلبہ نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حجاب کرنے اور مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں تقریب سے نکالا گیا۔ کونووکیشن کی تقریب میں بھارتی صدر رام ناتھ نے تمام طلبہ میں سرٹیفکیٹس اورمیڈلز تقسیم کیے لیکن ربیعہ ہال سے باہر ہونے کی وجہ سے اپنا گولڈ میڈل اور سرٹیفکیٹ حاصل کرنے سے محروم رہیں۔ بعدازاں بھارتی صدر کے جانے کے بعد ربیہا کریم کو ہال میں واپس بلایا گیا، انہیں سرٹیفکیٹ اور گولڈ میڈل پیش کیا جسے لینے سے انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ربیعہ کریم نے گولڈ میڈل لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھارتی شہریت کے متازعہ بل کے خلاف احتجاج ہے ساتھ ہی میں ان طلبہ سے اظہار یکجہتی کرتی ہوں جنہوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔"دوسری جانب بھارت کی وفاقی کابینہ نے ملک میں اگلے برس مردم شماری اورآبادی کے حوالے سے سروے کے لیے فنڈز کی منظوری دے دی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مردم شماری اور سروے سے حاصل کردہ دستاویزات کو مبینہ طور پر شہریوں کی متنازعہ رجسٹریشن کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر پراکاشن جویدکر نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے 87 ارب 54 کروڑ بھارتی روپے (ایک ارب 23 کروڑ ڈالر) مردم شماری اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 39 ارب 41 کروڑ بھارتی روپے مختص کردیئے ہیں۔