منشیات کیس: رانا ثناء اللہ کی ضمانت منظور
لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ نے منشیات سمگلنگ کیس میں گرفتار سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے دس، دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری مشتاق احمد نے رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ رانا ثناء اللہ کی جانب سے ایڈووکیٹ زاہد حسین بخاری، احسن بھون اور اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دئیے اور اس موقع پر رانا ثناء اللہ کی اہلیہ اور داماد کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ اے این ایف کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر عرفان ملک نے دلائل دئیے۔ رانا ثناء اللہ کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ حکومت کیخلاف تنقید کرنے پر رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا، وقوعہ کی ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی جو مقدمہ کو مشکوک ثابت کرتی ہے، ایف آئی آر میں 21 کلو گرام ہیروئن سمگلنگ کا لکھا گیا جبکہ بعد میں اسکا وزن 15 کلو گرام ظاہر کیا گیا، انہوں نے گرفتاری سے قبل گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ اب بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا، رانا ثناء اللہ کیخلاف کیس میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی لہذا منشیات سمگلنگ کے مقدمہ میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے، پراسیکیوٹر اے این ایف نے عدالت کو بتایا تھا کہ منشیات برآمدگی ازخود ایک جرم ہے اور رانا ثناء اللہ سے یہ منشیات برآمد ہوئی ہیں، رانا ثناء اللہ کے قبضہ سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اسی وجہ سے دوسرے ملزموں کو گرفتار نہیں کیا گیا، آپ دیکھیں رانا ثناء اللہ کے موقع سے گرفتار ساتھی ملزموں کو بھی خاص طور پر نامزد نہیں کیا گیا، جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے استفسار کیاکہ رانا ثناء اللہ کے کیس میں کتنے گواہ ہیں؟ اے این ایف وکیل نے بتایاکہ کل 6 افراد گواہ ہیں جن میں مدعی، ریکوری میمو بنانے والا اور دیگر لوگ شامل ہیں، رانا ثناء اللہ کا جرم ناقابل ضمانت ہے، اینٹی نارکوٹکس قانون کے مطابق 9 سی کے مقدمہ میں موت کی سزا ہے رانا ثناء اللہ سے موقع سے ریکوری ہوئی ہے۔ احسن بھون ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پراسیکیوشن نے ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا کہ رانا ثناء اللہ سے منشیات برآمد ہوئی ہیں، اے این ایف وکیل نے بتایاکہ منشیات کی کیمیکل کی تجزیاتی رپورٹ آ چکی ہے، اے این ایف کی ساکھ پر کبھی بھی شک نہیں کیا جاسکتا، ہمیں ڈائریکشن دے دیں ہم ایک ماہ میں مقدمہ کا ٹرائل مکمل کر لیں گے۔ اگر رانا ثناء اللہ بے قصور ہوئے تو ٹرائل میں بری ہو جائیں گے، عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے رانا ثناء اللہ کو دس دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیدیا۔رانا ثناء کی ضمانت ہو گئی لیکن عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث رانا ثناء اللہ ایک روز اور جیل میں گزاریں گے۔ ہائیکورٹ کا تحریری حکم جاری نہ ہونے کے باعث رانا ثناء اللہ کے مچلکے جمع نہ ہو سکے۔ عدالتی حکم جاری ہونے کے بعد ضمانتی مچلکے جمع ہونے پر رہائی کی روبکار جاری کی جائے گی۔ رانا ثناء اللہ کی اہلیہ نے کہا ہے کہ میں اور میرا خاندان اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے۔ لیکن رانا ثناء اللہ کو 6 ماہ تک حراست میں رکھنے کا حساب کون دے گا۔ منشیات برآمدگی کیس میں ضمانت منظور ہونے پر انکی اہلیہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے شوہر کی درخواست ضمانت منظور ہونے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں۔ مجھے اور میرے خاندان کو انصاف کہاں سے ملے گا۔ قبل ازیں رانا ثناء اللہ کی اہلیہ، بیٹی اور داماد نے ضمانت منظور ہونے پر احاطہ عدالت میں شکرانے کے سجدے کئے اور اس موقع پر جذباتی مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ رانا ثناء اللہ کی اہلیہ اور بیٹی کے منجمد بینک اکائونٹس کھولنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی گئی ہے۔ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج شاکر حسین4 جنوری کو درخواست پر سماعت کریں گے۔ درخواست رانا ثناء اللہ کی بیٹی اور اہلیہ نے اپنے وکیل وقار رئیس کی وساطت سے دائر کی تھی جس میں بینک اکائونٹس کھولنے کی استدعا کی گئی ہے۔ احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 7 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج امجد نذیر چودھری نے آشیانہ اقبال ریفرنس کی سماعت کی، دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 16 ہزار غریب شہریوں نے آشیانہ اقبال کیلئے 61 کروڑ روپے جمع کروائے، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی نے 20 جنوری 2015ء کو معاہدہ کیا، تین سال گزر جانے کے باوجود منصوبہ مکمل نہ ہوسکا، کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کو 64 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ عدالت نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف آشیانہ اقبال کرپشن ریفرنس میں مسلسل عدالت سے غیر حاضر ہیں اور ان کی عدم پیشی کے باعث عدالتی کارروائی متاثر ہو رہی ہے۔ عدالت نے کہا کہ شہباز شریف کو یہ آخری موقع دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ حاضری یقینی بنائیں۔ نیب استغاثہ کے مطابق شہباز شریف نے پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) پر دباؤ ڈال کر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا اور پھر یہی ٹھیکہ پی ایل ڈی سی کو واپس دلایا جس سے قومی خزانے کو 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ نیب کے مطابق شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر کنسلٹنسی کانٹریکٹ ایم ایس انجینئر کنسلٹنسی کو 19کروڑ 20 لاکھ روپے میں دیا جبکہ نیسپاک کا تخمینہ 3 کروڑ روپے تھا۔ آن لائن کے مطابق نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف سمیت ان کے خاندان کے سات افراد کو ایک مرتبہ پھر طلبی نوٹس جاری کرتے ہوئے نوٹس کے جواب سمیت متعلقہ دستاویزات کے ہمراہ یکم جنوری 2020 کو طلب کرلیا ہے۔ نیب نے ان پر آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کا الزام عائد کر رکھا ہے یہ بھی بتایا گیا ہے۔ کہ نیب نے جاوید لطیف سمیت دیگر افراد کو پہلا نوٹس 12 دسمبر کو اور دوسرا نوٹس 18د سمبر کو جاری کیا تھا جو اب تیسرا نوٹس 24 دسمبر کو جاری کیا گیا ہے۔
اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نارووال سپورٹس سٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں کے معاملے میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو 6جنوری تک 13روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا ہے۔ منگل کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس کی سماعت ہوئی، جہاں گرفتار کیے گئے احسن اقبال کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب، راجا ظفر الحق و دیگر لیگی قیادت احتساب عدالت پہنچی تھی۔ نیب نے احسن اقبال کے 14روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور کہا کہ ملزم سے مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ چاہیے۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم سے دستاویزات کی برآمدگی کے لیے بھی ریمانڈ درکار ہے، نیب نے احسن اقبال کی گرفتاری کی تحریری وجوہات احتساب عدالت میں پیش کر دیں۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو گرفتاری کی وجوہات بتائیں کہ نارووال اسپورٹس سٹی کے پراجیکٹ کی لاگت میں اضافہ کیا گیا۔نیب کی جانب سے عدالت میں جمع کی گئیں دستاویز میں احسن اقبال کی گرفتاری کی 3وجوہات بیان کی گئی ہیں، دستاویز میں الزام لگایا گیا ہے کہ منصوبے کی لاگت 3کروڑ 40لاکھ روپے سے بڑھا کر 9کروڑ 70لاکھ کی گئی، لاگت بڑھانے کی کسی مجاز اتھارٹی یا فورم سے منظوری نہیں لی گئی، سی ڈی ڈبلیو پی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھانے کی منظوری نہ لینا اور خود ایسا کرنا بدنیتی ہے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ پلاننگ کمیشن کے ڈیولپمنٹ مینوئل میں درج قابلِ عمل اسٹڈی کے بغیر شروع کیا گیا، 50ملین سے زیادہ کی لاگت کا اسکوپ بڑھانے کے لیے قابلِ عمل ہونے کی اسٹڈی ضروری ہے، منصوبہ ریکارڈ کے ساتھ 15 مارچ 2012 کو پنجاب حکومت کے حوالے کیا گیا، پنجاب اسپورٹس بورڈ کو منصوبے کی حوالگی کے باوجود احسن اقبال نے اس پر وفاقی حکومت کے فنڈز خرچ کیے۔نیب دستاویزمیں کہا گیا ہے کہ احسن اقبال نے بدنیتی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھایا جس کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا، منصوبے کا از سر نو پی سی ون تیار کیا گیا جس کی لاگت 2498اعشاریہ 779ملین تھی، نئے پی سی ون کی منظوری 17جولائی 2014 کو سی ڈی ڈبلیو پی نے دی، جس کی سربراہی اس وقت احسن اقبال خود کر رہے تھے۔نیب کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کا ایک اور پی سی ون تیار کرایا گیا جس کی لاگت 2994اعشاریہ 329ملین روپے تھی، سی ڈی ڈبلیو پی نے 3مئی 2017 کو اس کی منظوری دی۔نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر احمد خضر کے مطابق گرفتاری کی 5دیگر وجوہات بھی ہیں، اب تک جرم کے ثبوتوں سے احسن اقبال براہِ راست جڑے ہوئے ہیں، ان کی گرفتاری کے بغیر ثبوت اکٹھے نہیں کیے جا سکتے۔ احسن اقبال کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل طارق محمود جہانگیری نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔وکیل نے کہا کہ ان کے موکل احسن اقبال نے منصوبے کے لیے کوئی رقم منظور نہیں کی، اگر نیب کے پاس احسن اقبال کے خلاف کوئی ایک بھی دستاویز ہے تو 90دن کا ریمانڈ دے دیں۔طارق جہانگیری نے کہا کہ احسن اقبال پر رشوت لینے کا کوئی الزام نہیں، یہ کوئی قتل کا کیس ہے جو نیب نے ریمانڈ لینا ہے، اس کیس میں نیب نے کیا برآمد کرنا ہے جو ریمانڈ مانگ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات وفاقی حکومت کے پاس موجود ہیں، جسمانی ریمانڈ منظور نہ کیا جائے۔اس موقع پر احسن اقبال بھی اپنے دفاع میں بولے اور کہا کہ گزشتہ برس مجھے گولی لگی تھی، نیب سے کہا کہ ڈاکٹروں کے پاس سے ہوکر آئوں گا، مجھے جمعے کو بلا لیں میں پیش ہو جائوں گا۔ میں نے طبی بنیاد پر کوئی رعایت نہیں لی، جب بھی بلایا گیا میں پیش ہو گیا ڈاکٹروں کے پاس جانا تھا لیکن میں نہیں گیا اور نیب میں پیش ہو گیا۔ نیب نے پیش ہونے پر ہی مجھے گرفتار کر لیا۔احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ یکم جنوری کو سروسز ہسپتال لاہور میں ڈاکٹروں سے چیک اپ کروانا ہے، یہ وہی ڈاکٹرز ہیں جنہوں نے میری اصل میں سرجری کی ہے، امید ہے آپ میرٹ پر فیصلہ کرینگے اور مجھے رہا کر دینگے۔مسلم لیگ (ن)کے رہنما نے عدالت میں کہا کہ اپنی ذرا سمجھ کے لیے نیب سے پوچھنا چاہوں گا کہ بیس ماہ سے انکوائری کر رہے ہیں، کن الزامات پر گرفتار کیا کوئی کک بیکس کمیشن، مالی بے ضابطگیوں کا الزام ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ نیب سے کہنا چاہیں گے کہ 1993میں وہ رکن قومی اسمبلی بنے، میرے پاس 1993میں جتنے اثاثے تھے 2019میں کم ہوگئے ہیں۔ ان کی کردارکشی اور شہرت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، نیب جو اچھا کام کر رہا ہے سیاسی کیسوں سے اچھے کام بھی دھندلانے لگے ہیں۔نارووال منصوبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ڈھائی ارب روپے کا منصوبہ تھا جو 2009میں شروع ہوا، اس وقت وہ اپوزیشن میں تھے لیکن 2013میں انتخابات کے دوران اس کھنڈر کو مکمل کرنے کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔ احسن اقبال نے دعوٰی کیا کہ کرتارپور راہداری منصوبے کا بھی پی سی ون تیار نہیں ہوا، اسی دوران عدالت میں جج نے احسن اقبال کو مزید بولنے سے روک دیا۔بعد ازاں نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل جاری رکھے اور بتایا کہ کک بیکس نہ بھی ہوں لیکن اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا، جس پر وکیل احسن اقبال نے کہا کہ ان کے موکل کا آپریشن ہوا ہے، لہذا گھر سے کھانے اور واک کی اجازت دی جائے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ احسن اقبال سی پیک پر کتاب لکھ رہے ہیں لیپ ٹاپ کی اجازت بھی دی جائے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے ملاقات کرنے والوں میں مریم اورنگزیب کا نام بھی لکھا جائے۔بعد ازاں عدالت نے احسن اقبال کے جسمانی ریمانڈ کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے 6جنوری تک ان کو ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔قبل ازیں احتساب عدالت آمد کے موقع پر میڈیا سے غیررسمی گفتگو میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر مجھے اس لیے گرفتار کیا گیا کہ میں نے نارووال کے عوام سے کیا گیا وعدہ پوا کیا اور نواز شریف اور مسلم لیگ(ن)کے ساتھ وفادار ہوں تو مجھے یہ سزا قبول ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اس لیے گرفتار کیا گیا کہ عمران احمد خان نیازی کی ناکام حکومت کے خلاف میں بولنے سے چپ ہوجائوں تو یہ سزا قبول نہیں، ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے یہ لوگ اوچھے ہتھکنڈوں سے کامیاب نہیں ہوسکتے۔