قومی اتفاق رائے کی آواز۔ بے نظیر بھٹو
27 دسمبر ہر سال آ جاتا ہے ۔ دل تو یہ کہتا ہے کہ یہ دن کبھی نہ آئے جس دن ایک معصوم لیکن بہادر خاتون کو دن کی روشنی اور سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا۔ کس نے کیا کا سوال 12 سال سے حل طلب ہے۔ سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود قاتلوں کو تلاش نہ کر سکی۔ روشنی کو چھیننے والے کہاں چلے گئے اور یہ سازش کس نے تیار کی کا راز شاید کبھی نہ کھل سکے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں قاتلوں کو چھپا لیا جاتا ہے۔
آج 27 دسمبر 2019ء کو ہم بے نظیر بھٹو کی برسی منا رہے ہیں توملک میں جمہوریت ہے 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ مرکز کے ساتھ ساتھ KPK اور پنجاب میں حکومتیں بنی جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان احتساب پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ہر دیوار کو عبور کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ جیلوں میں ہے یا ملک سے باہر۔ مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے بعد آرام فرما رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ اور لاہو ر ہائی کورٹ میں نئے چیف جسٹس صاحبان آ گئے ہیں ۔ اس طرح آرمی چیف کی Extension کا معاملہ پارلیمنٹ میں آنے والا ہے۔ بیورو کریسی اور بزنس مین حضرات احتساب بیورو کی بدولت کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں Vision کی ضرورت ہے۔ جس پر ہمیں بے نظیر بھٹو کی یاد ستا رہی ہے۔ کیونکہ معامالات بہت سنگین ہیں ۔ بین الاقوامی طور پر ہم تنہائی کا شکار ہیں۔ جس کے لیے انٹر نیشنل ویژن ہونا چاہیے اور قومی اتفاق رائے کے لیے قومی لیڈر شپ ہونی چاہیے۔ بد قسمتی سے آج قوم انتشار کی شکار ہے ۔ قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے والا کوئی نہیں۔ فوج کی اجتمائی سوچ یہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت اور دیگر امور پر اتفاق رائے سے فیصلہ ہونا چاہیے۔ عام قانون سازی کرنی ہو یا آئین میں ترمیم ۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی، جدوجہد ، کارنامے اور ملک و قوم کے لیے خدمات پر محیط ہیں۔ 1988ء اور 1993 ء میں وزیر اعظم بنیں ۔ 1998 میں دبئی چلی گئیں اور دس سال بعد 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آئیں تو بم دھماکوں نے انکا استقبال کیا۔ تمام خطرات اور خدشات کو پس پشت ڈالے ہوئے انتخابی مہم جاری رکھی۔ جمہوریت ، قانون کی حکمرانی ، عدل اور ملک کی ترقی کے عزم کی تکمیل کے لیے وہ بے دھڑک باہر نکل آئیں۔ مجھے 1996ء سے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے آخری دن تک چلتا رہا۔ میرے ساتھ تعلق کا عالم یہ تھا کہ 1997ء اور 2002ء میںPPP کے لیڈروں کیمخالفت کے باوجود صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور کہا کہ وہARD میں پارٹی کے لیے کام کر رہا ہے اور میڈیا کی ذمہ داری سنبھالی ہے میں اس کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہوں البتہ اگر وہ سینٹر بننا چاہتا ہے تو اس سے بات کر لیں۔ بے نظیر بھٹو اپنے ساتھیوں کا بہت خیال کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ نشست ہارنا قبول ہے لیکن ساتھی کو مایوس کرنا نہیں۔ جب ہم لوگ نواب زادہ نصرہ اللہ خان اور سہیل وڑائچ کے ساتھ لندن گئے تو انہوں نے پارٹی کے لوگوں کو کہہ کر دعوتوں کا اہتمام کرایا۔ 2006ء کو نیو یارک میں انہوں نے میری بیٹی سارہ خان کی منگنی پر مبارک باد کے لیے ہوٹل میں دعوت دی ۔ جس میں دوسری بیٹی رائما خان بھی شریک ہوئیں۔ بیٹیوں کو تحفے دیئے اور ڈھیر ساری دعائیں بھی۔ بے نظیر بھٹوں کے مخالفین کہتے تھے کہ بے نظیر کسی کی نہیں سنتی اور مجھے جب ان کے قریب ہو نے کاموقع ملا تو میں حیران ہو گیا کہ وہ تو مشاورات پر سب سے زیادہ یقین رکھتی ہیں۔مشاورت کا عالم یہ تھا کہ 1997ء کے بعد محترمہ نے جب بھی لاھو ر کا دورہ کیا تو وہ اپنے پروگرامز کو تین حصوں میں تقسیم کرتی تھیں۔ پارٹی کے لوگوں سے ملاقات ، میڈیا سے رابطہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں۔ دانشوروں کے تین گروپ بنائے جاتے تھے جن میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ ، فوجی ، ججز اور وکلاء شامل تھے۔ جس میں ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر گھنٹوں گفتگو ہوتی تھی۔ ان مالاقاتوں کے نتیجہ میں محترمہ کے لیے اپنی سوچ بنانا بے حد آسان ہوتا تھا۔ آج ملک کو کسی بے نظیر کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پاکستان کے استحکام پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ آج زندہ ہوتیں تو قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کرتیں۔ بلا شبہ لوٹا ہوا مال قومی خزانے میں جمع ہونا چاہیے لیکن ملک کو خطرے میں ڈال کر نہیں۔ اور ایسا صرف قومی جذبے اور قومی سوچ رکھتے ہوئے ہی کر سکتے ہیں۔ اور یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ انتقام لیا جا رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ جمہوریت میں انتقام نہیں انصاف ہوتا ہے اور انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ نظر بھی آنا چاہیے۔ آج جب ہم بے نظیر بھٹو کی برسی منا رہے ہیں تو ہمیں مشاورت اور قومی اتفاق رائے کو اپنا مشعل راہ بنانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی ہو، انصاف کا بول بالا ہو اور ہر شہری کے ساتھ آئین کے مطابق برابری کا سلوک ہو۔