• news
  • image

بلاول کو کیا کرنا چاہیے؟؟؟

بلاول بھٹو اپنی والدہ کی برسی پر حکمرانوں پر برستے رہے ہیں۔ وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر بھٹو کی کامیابیاں اور خدمات گنواتے رہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا والد محترم کے کارنامے بھی عوام کے سامنے رکھتے۔ جب ستر، اسی اور نوے کی دہائی کے سچ بولنے کا دل کرتا ہے تو پورا بولیں۔ یہ ملک توڑنے میں جس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ درست ہے کہ بہت سے لوگ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے بہت سے کرداروں کو یاد نہیں کرتے لیکن یاد نہ کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی۔ پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں جس نے جو حصہ ڈالا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت جس جس نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی امانت میں خیانت کی ہے اسے سزا ملی ہے۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں اپنا کردار واضح کر سکتی ہے۔ کیا اس وقت ان کے بڑوں نے اتحاد کی پالیسی اپنائی تھی یا اقتدار کی کشمکشِ میں ایوانِ اقتدار کو ترجیح دی تھی۔ بلاول کو نصیحت ہے جب کبھی عوام سے مخاطب ہوں تو براہ کرم سچ بولیں۔ دروغ گوئی کے بجائے حقائق پر بات کریں۔ چلیں ستر کی دہائی سے نہ سہی انیس سو ستاسی کے بعد نوے کی دہائی میں کھیلے جانے جمہوری کھیل اور اپنے والد کی آخری جمہوریت کے حقائق ہی بیان کر دیا کریں۔ اگر وہ عوام پر یہ احسان کریں تو سادہ لوح اور معصوم عوام کو سمجھنے میں ضرور آسانی ہو گی۔ وہ یہ جان سکیں گے کہ حقیقت میں عوام کو دھوکہ کس نے دیا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر عوام سے جو کھلواڑ کیا گیا، انہیں تقسیم کیا گیا اس کا اصل ذمہ دار کون ہے۔
بلاول کے والد کی جماعت نے اپنی مدت پوری کی ہے ان پانچ برسوں میں طاقت، اقتدار اور اختیارات کے ہوتے ہوئے وہ اپنی والدہ کے قاتلوں تک نہیں پہنچ سکے۔ قاتلوں تک جانا تو دور کی بات ہے۔ اس قتل کے گواہوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جو حکومت میں ہونے کے باوجود والدہ کے قتل کا سراغ نہیں لگا سکے وہ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ایسے بیانات پڑھ کر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔ بلاول حکومت اور نظام پر ضرور تنقید کریں یہ ان کا بنیادی حق ہے لیکن اپنے والد کی پیپلز پارٹی سے بھی سوالات ضرور کریں۔ وسیع تر ملکی مفاد میں انہیں اپنے والد سے بھی سوال کرنا چاہیے کہ پیارے بابا والدہ کے قاتل کون ہیں اور آپ اتنا عرصہ حکومت میں رہے اور میری والدہ کے قاتل تو کیا اس کے گواہان کی حفاظت بھی نہیں کر پائے۔ کیا محترمہ کے قتل پیروی کرنا اسے ثبوتوں اور شہادتوں کی حفاظت کرنا لیکن یہ سب نہ ہو سکا اور آج وہ والدہ کی برسی کو سیاسی اجتماع بناتے ہوئے سادہ لوح عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں جو حال اداروں کا ہوا ہے کیا لوگ نہیں جانتے۔ ملک میں امن و امان تباہ ہو کر رہ گیا۔ اندرونی و بیرونی طور پر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ملک بم دھماکوں کی لپیٹ میں تھا اور بلاول کے والد کی حکومت پر گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔ ریاست کے اداروں کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ ایک ایک دن میں کئی بم دھماکے ہوتے تھے۔ مہنگائی کا طوفان تھا، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔ کرپشن کا بازار گرم تھا۔کہیں سے کوئی اچھی خبر نہ آتی تھی۔ ان کے والد کی اسی کارکردگی کی وجہ سے عوام نے انہیں دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں مسترد کر دیا۔ ان کے والد آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی بدانتظامی اور لالچ کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی بلاول دوسروں سے جواب مانگتے ہیں سوال و جواب کا سیشن اپنے گھر انے سے شروع کرتے ہوئے اپنے والد گرامی سے پہلا انٹرویو کریں۔ پھر اپنی جماعت کے سرکردہ افراد سے سیشن کریں اور اس سیشن سے سامنے آنے والے حقائق کو بھی عوام کے سامنے رکھیں۔
کرپشن اور لوٹ مار کا حساب دینے کے بجائے وہ جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے اور یہ کہتے کہ جمہورث بہترین انتقام ہے۔ یہ انتقام عوام سے لیا گیا ہے۔ یہ انتقام ریاست کے اداروں سے لیا گیا ہے۔ یہ انتقام بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی امانت سے لیا گیا ہے۔ کہیں اس انتقام کا برا اثر پی پی ہی کے کسی بڑے پر تو نہیں پڑا۔ اس انتقام نے ملکی بنیادوں کو کمزور کیا ہے عوام کو بدحال کیا ہے۔ عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہنے والوں نے کرپشن کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا اور عوام کے پاس رونے پیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔ بلاول کو ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے کم از کم عوام کے ساتھ غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے ووٹرز کو اصل اور مکمل تصویر دکھانی چاہیے۔ اگر ن سے غلطیاں ہوئی ہیں تو انہیں بھی تسلیم کرنا چاہیے۔۔
والدہ کی برسی کے موقع پر انہیں چاہیے کہ عہد کریں کہ ریاست کے وفادار رہیں گے اور جس جس نے کرپشن کی ہے اسے نشان عبرت بنایا جائے گا۔ جس جس نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کا اس ملک اور اس ملک کے معصوم عوام پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
رہی بات ان کی اقتدارِ سے باہر ہونے کی تو یہ فیصلہ پاکستان کے عوام نے کیا ہے وہی عوام جسے وہ طاقت کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ طاقت کے سرچشمے کے فیصلے پر اعتماد کرتے ہوئے آئندہ انتخابات تک آرام فرمائیں۔ اگر عوام کی خدمت کا شوق ہے تو سندھ ان کے پاس ہے اس کی حالت بدلنے کی طرف توجہ دیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن