مہنگائی 8 سال کی بلند ترین سطح پر، جی ڈی پی کی 4 فیصد نمو کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں: سٹیٹ بنک
کراچی ( کامرس رپورٹر) بینک دولت پاکستان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حقیقی جی ڈی پی کی 4 فیصد نمو کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا، مالی سال 2020ء کی پہلی سہ ماہی میں عمومی صارف اشاریہ قیمت(CPI) مہنگائی 11.5 فیصد ہوگئی، مہنگائی کی یہ سطح نہ صرف گذشتہ برس کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں دگنی تھی بلکہ یہ مالی سال 2012ء کی چوتھی سہ ماہی سے لے کر اب تک سہ ماہی مہنگائی کی بلند ترین سطح بھی ہے جبکہ کہ اہم فصلوں کی پیداوار مالی سال 2020ء کے ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے۔ سٹیٹ بینک نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر پہلی پیر کے روز سہ ماہی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 20 ء کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی معیشت بتدریج مطابقت کی راہ پر گامزن رہی۔ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کی شروعات سے کلی معاشی استحکام کی رفتار بڑھ گئی۔ سٹیٹ بینک نے مسلسل زری پالیسی کو مہنگائی کے وسط مدتی ہدف سے ہم آہنگ رکھا جبکہ مالیاتی محاذ پر یکجائی کی کوششیں نمایاں رہیں۔ مزید برآں، مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کا ایک نظام نافذ کیا گیا اور انٹربینک فارن ایکس چینج مارکیٹ نے خود کو اس نظام سے خاصا ہم آہنگ کر لیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے سٹیٹ بینک کے قرضے کے رول اوور سمیت خسارے کی مونیٹائزیشن سے گریز کیا اور دستاویزیت کی کوششوں کو فعال انداز میں آگے بڑھایا۔ رپورٹ کے مطابق جڑواں خساروں میں کمی کی شکل میں معاشی استحکام کی جاری کوششوں کے ثمرات نمایاں ہو چکے ہیں۔ مالی سال 20 ء کی پہلی سہ ماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ بنیادی طور پر درآمدات میں خاصی کمی کی بدولت گر کر گذشتہ برس کی نصف سطح سے بھی کم رہ گیا۔ کم اکائی قیمتوں کی وجہ سے برآمدات کی نمو پست رہی۔ تاہم، حجم کے لحاظ سے برآمدات میں قابل ذکر نمو دیکھی گئی۔ مالیاتی محاذ پر مجموعی خسارہ گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں کم رہا اور بنیادی توازن میں پچھلی 7 سہ ماہیوں میں پہلی مرتبہ فاضل درج کیا گیا۔ اس بہتری میں محصولات میں اضافے اور اخراجات پر قابو پانے کے اقدامات دونوں نے کردار ادا کیا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سہ ماہی کے دوران ترقیاتی اخراجات میں 30.5 فیصد کی بلند نمو ہوئی۔جی ڈی پی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ خریف کے موسم کے نظرِ ثانی شدہ تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم فصلوں کی پیداوار مالی سال 20ء کے ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے۔ مالی سال 20ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) کے شعبے میں 5.9 فیصد کی سال بسال کمی دیکھی گئی ۔ یہ تخفیف وسیع البنیاد تھی کیونکہ تعمیرات سے منسلک صنعتوں، پیٹرولیم اور گاڑیوں کی صنعتوں کی نمو میں کمی کا رجحان جاری رہا۔ اس کے مقابلے میں شرح مبادلہ میں پہلے کی گئی اصلاحات سے برآمدی صنعتوں کو مدد ملی ، جس کی عکاسی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی نسبتاً بہتر کارکردگی سے ہوتی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی حقیقی جی ڈی پی کی 4 فیصد نمو کا ہدف حاصل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی سال 20ء کی پہلی سہ ماہی میں عمومی صارف اشاریہ قیمت(CPI) مہنگائی 11.5 فیصد ہوگئی، جو مالی سال 19ء کے آغاز سے شروع ہونے والے اضافے کے رجحان کا تسلسل ہے۔ مہنگائی کی یہ سطح نہ صرف گذشتہ برس کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں دگنی تھی بلکہ یہ مالی سال 12ء کی چوتھی سہ ماہی سے لے کر اب تک سہ ماہی مہنگائی کی بلند ترین سطح بھی تھی۔ اس صورت حال کو مالی سال 19ء کے اختتام پر شرح مبادلہ کی قدر میں کمی کے تاخیری اثرات، توانائی کے نرخوں کی اصلاح اور2019-20ء کے بجٹ میں محاصل بڑھانے کے مالیاتی اقدامات، جن میں متعدد صارفی اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ، برآمدی شعبوں پر زیرو ریٹنگ کے نظام کا خاتمہ نیز شکر پر جی ایس ٹی میں کمی شامل ہیں، سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیرونی محاذ پر مالی سال 20ء کی پہلی سہ ماہی میں ادائیگیوں کے توازن میں بہتری کا عمل جاری رہا۔ تجارتی خسارے میں خاصی بہتری اور آئی ایم ایف سے ای ایف ایف کی پہلی قسط کی وصولی اور بیرونی پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں اضافے کے ساتھ جاری کھاتے کے فرق کو دستیاب رقوم سے پورا کیا گیا۔ ان رقوم کی آمد کے باعث سہ ماہی کے دوران سٹیٹ بینک کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں 656.2 ملین ڈالر کا اضافہ کرنے اور اپنے خالص فارورڈ واجبات 1.3 ارب ڈالر کم کرنے میں مدد ملی۔ رپورٹ میں اس بات زور دیا گیا ہے کہ آگے چل کر ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تسلسل کے ساتھ مضمر ساختی مسائل کا تدارک کرتے ہوئے معیشت کو متوازن اور پائیدار معاشی نمو کی راہ پر گامزن رکھے۔ مزید برآں، کاروبار کرنے میں آسانی کے فوائد بھی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرموں کے لیے بھی یہ بات اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ ایسی معاون پالیسیوں، بالخصوص برآمدات کے فروغ کی رعایات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی قدری زنجیروں (جی وی سیز) میں قدم جمانے کے فوائد سے استفادہ کریں۔ جیساکہ رپورٹ میں ا یک علیحدہ خصوصی سیکشن میں بتایا گیا ہے ، عالمی قدری زنجیروں میں شراکت بڑھانے سے نہ صرف ملکی مصنوعات کے آمیزے کو عالمی طلب کے رجحانات سے ہم آہنگ بلکہ برآمدات کو پائیدار نمو کی راہ پر گامزن کرنا بھی ممکن ہو سکے گا۔