احتساب ، نیب اورنیب ترمیمی آرڈیننس
30 جنوری کو ہائیکورٹ نے آرڈر میںواضح لکھا کہ درخواست گزاروں کے خلاف کوئی ایسا الزام نہیں ہے کہ انہوں نے ٹھیکہ دیتے وقت کمشن، یا کک بیک یاغیر قانونی مالی فوائد حاصل کئے۔ ریکارڈ میں ایساکچھ نہیںکہ انہوں نے ایک پائی بھی رشتے داروں یا دوستوںکے اکائونٹ میں منتقل کی ہو۔ راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے کنسلٹینسی فراہم کی مگر وہ ادائیگیاں جو ابرائیک کو کی گئیں ان پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے دوبارہ وسیم اجمل کو نیب نے حراست میں لے لیا۔ جس پر احتساب عدالت نے غیر حقیقی الزامات پر دس دن کے ریمانڈ کے بعد ہی انہیں جوڈیشل کر دیا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ پراجیکٹ پر وسیم اجمل کو عالمی بنک، ہندوستان، قطر، دوبئی اور دنیا کے بہت سارے ممالک سے تعریفی سرٹیفکیٹس ملے اور انہیں پاکستان کی بجائے ان ملکوں میں پرکشش مراعات پر نوکریاں آفر کی گئیں۔ مگر چونکہ اس منصوبے کے ساتھ شہباز شریف کانام لگا ہوا ہے ۔ لہٰذا جونہی شہباز شریف نواز شریف کے ہمراہ لندن روانہ ہوئے تو وسیم اجمل کو نیب نے پکڑ لیا۔ حالانکہ نیب ہائیکورٹ میں یہ کہہ چکی تھی کہ انہیں اس کیس میں وسیم اجمل کو گرفتارکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو بنیادی طور پر ایک رحمدل اور انصاف پسند شخص ہیں۔ انہوں نے نیب قوانین میں ترامیم کرکے بے حد صائب اوردرست فیصلہ کیا ہے۔ نیب کے عام سے اہلکاروںکو ٹیکنیکل نوعیت کے پراجیکٹس کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ بیورو کریٹس کو یہ کہیں گے کہ یہ پراجیکٹ اتنے میں لگ سکتا تھا۔ آپ نے سستا کیوں نہیں لگایا۔ وہ کوالٹی اور گورنمنٹ محکموں کے طریقہ کار پر بغیر سوچے سمجھے اعتراض کر دیتے ہیں۔ جتنے کا پراجیکٹ نہیں ہوتا اس سے کئی گناہ زیادہ کریشن کا الزام لگا کر میڈیا ٹرائل شروع کر دیا جاتا ہے۔ احسن اقبال کے نارووال سپورٹس کمپلیکس اس وقت شروع جب وہ اپوزیشن میںتھے ۔ کل ڈھائی ارب کامنصوبہ تھا مگر اُن پر چھ ارب کرپشن کاالزام لگا کر میڈیا ٹرائل کیا گیا۔
جب عدالت میں احسن اقبال کو پیش کیا گیا تو نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ احسن اقبال پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اُنہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ۔ عمران خان کی حکومت نے نیب ترامیمی آرڈینس جاری کر کے ایماندار سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور کاروباری حضرات کو جو اطمینان اور ریلیف دیا ہے اسکے بڑے موثر نتائج ملیں گے۔ ملک میں بیورو کریسی ترقیاتی کاموں کو بلاجھجک شروع کر پائے گی اور بڑے بڑے کاروباری حضرات اور صنعتکار نئے نئے منصوبے شروع کر پائیں گے۔ لہٰذا اپوزیشن یا نیب کے اہلکاروں کا اس آرڈیننس پر شور و غوغا بالکل ناجائز ہے۔ کرپشن پرہر شخص کو سزا ملنی چاہئے۔ مگر ضروری ہے کہ نیب پہلے اس شخص کے خلاف کرپشن سے بنائے گئے اثاثوں کے واضح ثبوت پیش کرے اور پھر ٹرائل کرے مگر یہاں محض شک اور قیاس کی بنیاد پر سرکاری افسر یا سیاستدان کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور بے گناہی کا بار ثبوت اس پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ہر شخص اس وقت تک بے گناہ ہوتا ہے جب تک اس پرالزام عدالت میں ثابت نہ ہو جائے۔ مگر ملزم پر کئی کئی سال مقدمہ چلتا ہے۔ وہ کئی کئی سال جیل میںرہتا ہے۔ غریب ملزم تو ضمانت بھی حاصل نہیں کر پاتا ہے کئی ملزم تو جیلوں میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ مگر ان کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا جاتا ہے۔ جس کے طاقتور افراد پلی بارگین کے ذریعے شفاف ہو جاتے ہیں۔ اکثر ان لوگوں کی جائیدادوں کو نیب افسران کے مبینہ فرنٹ مین اونے پونے داموں خریدتے ہیں۔ اکثر اعلیٰ نیب افسران کی تعلیمی قابلیت معمولی ہے یا ان کی ڈگریاں مشکوک ہیںمگر اس ملک میں جب کسی شخص یا محکمے کو اختیار مل جاتا ہے تو وہ ناحق ظلم و ستم شروع کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے احتساب کے اصلی مجرموں کے ساتھ بھی عوام میں ہمدردی کی لہر بیدار ہو جاتی ہے۔ وہ دوبارہ اقتدار میں آ کر نیب کے ذریعے اپنے مخالفین کو فکس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر عمران خاں نے ان قوانین میں تبدیلی کے لیے آرڈیننس جاری کیا ہے تو اپوزیشن کو اسکی حمایت کرنی چاہئے اور پارلیمنٹ میں جب حکومت یہ بل پیش کرے تو اسے مزید منصفانہ بنانے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ ملزم کو ٹرائل کورٹ سے بھی ضمانت کا حق حاصل ہو۔ ریمانڈ کی مدت 90 روز کی بجائے 14 روز ہو اور غلط ٹرائل پر نیب افسران کیخلاف بے گناہ شخص کارروائی کرنے کا حق دار ہو۔ اگر وہ یہ کام good Faith میں کرتے ہیں تو بیورو کریٹس اور سیاسی آفس ہولڈرز بھی تو ترقیاتی کاموں کے متعلق فیصلہ good Faith میں ہی کرتے ہیں۔ یہ اصول سب پر لاگو ہونا چاہئے۔
چیئرمین نیب جاوید اقبال صاحب کاکہناہے کہ نیب نے کبھی بیورو کریٹس کو ناجائز ہراساں نہیں کیا تو پھرکیا وجہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسران اور کاروباری حضرات آرمی چیف اور وزیراعظم پاکستان کو مل کر نیب کے متعلق شکایت کرتے رہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ ہائیکورٹ سے ضمانت عارضی ریلیف ہوتا ہے۔ بیشک یہ بات درست ہے مگر ہائیکورٹ نے بعض کیسز جیسا کہ صاف پانی کیس ہے ضمانت کے فیصلوں میں اس قدر واضح Judgements دی ہیں کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ بعض مقدمات سیاسی بنیادوں اور مخصوص مقاصد کے لیے قائم کئے گئے ہیں۔ تاہم ہائوسنگ سکیموں میں فراڈ کیسز پرنیب کی کارکردگی قابل اطمینان ہے وہ ہائوسنگ سوسائٹیوں اور مضاربہ کمپنیوں کے ذریعے فراڈ کرنے والوں سے عوام کی رقومات نکلوا لیتی ہیں۔ اسی وجہ سے عمران خان کی حکومت نے نیب کو فراڈ اور دھوکہ دہی کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار واپس نہیں لیا ہے۔
تاہم سرکاری افسران جو کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ہو سکتا ہے ان میں سے چند ایک کرپٹ بھی ہوں تو انکے خلاف محکمانہ کارروائی یا اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ یا ایف آئی اے کے ذریعے بھی کارروائی کی جا سکتی ہے لہٰذا نیب کو حکومتی اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی خواہش ترک کردینی چاہئے۔ وگرنہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر برسانے والوں کو بھی ایک دن عوام کے سامنے بے نقاب ہونا پڑے گا۔ عمران خان کا پسندیدہ شعرہے…؎
یہ وقت کس کی رعونت کو خاک میں ڈال گیا
وہ کون تھا جو خدا کے لہجے میں بول رہا تھا
……………………… (ختم شد)