• news
  • image

حالات سازگار نہیں ہیں

خطے کی خراب صورتِ حال نے امریکہ اور ایران سمیت دیگر تماممالک کو بھی تشویش میں ڈال رکھا ہے۔ حالات دِن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور بظاہرحالات نارمل ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ کشیدگی بڑھتی چلی جارہی ہے، جنرل سلیمانی کی ہلاکت نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے، دْنیا نے اتنا بڑا جنازہ شاید ہی پہلے کبھی دیکھا ہو۔ ایران کے عوام میں بھی شدید غصے اور انتشار کی لہر پائی گئی۔ دوسری طرف امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے عراق کو دھمکی دے دی ہے کہ اگر بغداد نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت میں اپنے ملک سے امریکی فوجیوں کو نکل جانے کاحکم دیا تو وہ واشنگٹن میں اْن کے خلاف سخت پابندیاں عائد کردے گا اور ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد ہوائی اڈے پر امریکی فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ جبکہ تازہ ترین صورتِ حال کے مطابق ایران نے عراق میں موجود امریکی اڈوں پر حملہ کیا ہے اور اْن کے بے شمار لوگ مارے جانے کا بیان بھی دیا ہے۔ تہران میں ایرانی سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایران نے امریکہ و دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے2015ء کے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے یہ یورینیم کی افزودگی کی کسی حدودکی وہ پاسداری نہیں کرے گا۔ ڈر ہے کہ یہ ساری صورتِ حال کہیں عالمی جنگ کی صورت نہ اختیار کرجائے۔ چونکہ یہ تنازع اب امریکہ اور ایران تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عراق بھی اس میں شامل ہوچکا ہے۔ ایک طرف عراق کے وزیراعظم نے بیان دیا اور امریکہ پر یہ واضح بھی کردیا کہ امریکی افواج کے عراق سے نکلنے کا وقت آچکا ہے دوسری طرف امریکہ نے عراق کو سخت ترین دھمکیاں دے ڈالیں ہیں یہ تنازع اس وقت تو ٹرائی اینگل میں چل رہا ہے لیکن اس کا دائرہ کا وسیع ہوسکتا ہے۔ قاسم سلیمانی کی موت نے تمام ایران کو مزید مضبوط اور یکجا کردیا ہے اور وہ زیادہ طاقتور ہوکر سامنے آئے ہیں، جنرل قاسم کو ایران میں خامنہ ای کے بعد ملک کی دوسری بڑی اور اہم ترین شخصیت تصور کیا جاتا ہے وہ ایرانی عوام میں بے حد مقبول تھے اور انہیں ایران میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل تھا اس کا مظاہرہ دنیا بھر میں لوگوں نے اْن کے جنازہ پر دیکھا۔ نمازِ جنازہ کی امامت ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے کرائی۔ اس سے امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کی بھی نفی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی ٹویٹ میں دیا کہ ایران میں لوگ قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے اتنے بھی غمزدہ اور رنجیدہ نہیں ہیں جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ دراصل امریکہ جنرل قاسم سلیمانی کو اپنے اور دیگر امریکیوں کے لئے خطرہ تصور کرتا تھا لیکن حالات یکسر بدل گئے۔ جنرل کی ہلاکت سے پہلے تک ایران شدید دبائوکا شکار تھا۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بیروزگار کے خلاف گزشتہ سال نومبر سے ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے ہورے تھے۔ جس میں سینکڑوں مظاہرین مارے گئے تھے۔ اس صورتِ حال سے امریکہ اپنے مفادات کا ایران میں فائدہ اْٹھانے کی کوشش میں تھا اور ایران میں اندرونی کشیدگی کے سبب نظام میں تبدیلی کا خواہش مند تھا۔ مگر قاسم سلیمانی کی موت کے بعد ایرانی قوم پہلے سے زیادہ متحد ہوگئی۔ یہ صورتِ حال امریکہ کی لئے نہایت خطرناک اور گھمبیر ثابت ہوئی۔ انہی حالات نے عالمی جنگی صورت پیدا کرنے کے امکانات کو بھی بڑھا دیا ہے۔ امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے52مقامات اس کے ہدف پر ہیں اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی صورت میں اِن اہداف کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اب52 کا ہندسہ تو ایران میں52 سفارتخانوں کو بھی ظاہر کرتا ہے جبکہ ایران نے ردِ عمل کے طور پر خطے میں امریکہ کے290سے زائد مقامات کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ایران اپنے حمایت یافتہ ملائشیا کے ذریعے عراق، شام اور یمن میں امریکی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل بردار بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں موجود امریکی افواج بھی ایران کے نشانے پر ہوں گے۔امریکہ پہلے افغانستان سے جنگی جنون کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے جبکہ امریکہ عراق جنگ بھی امریکہ کی بہت بڑی غلطی ہے۔ ان کے علاوہ اب ایران سے تنازع اور جنگ مول لینے کی امریکہ تیسری بڑی غلطی کرتا ہے تو اس سنگین غلطی کا خمیازہ اْسے عرصہ دراز تک بھگتنا پڑسکتا ہے۔ ایسی صورت میں امریکہ پر عالمی دبائو کے ذریعے ہی سے اس خطرناک جنگ کے امکانات کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ بوجھ اور ذمہ داری فرانس اور برطانیہ کو اْٹھانا ہوگی۔ اگر چین، روس، فرانس اور برطانیہ نے سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن کی اپنی عالمی ذمہ داری حیثیت کا احساس کرتے ہوئے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس نہ بلایا تو جنگ کے خطرے کو روکنا ممکن نہیں رہے گا اور اس صورت حال میں سلامتی کونسل کو جلد اور تیزی سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگرچہ امریکی ایوان ہائے نمائندگان سے سول سوسائٹی کے جنگ مخالف اور امریکی عوام کے سچے خیر خواہوں کی طرف سے بڑی حقیقت پسندی سے اپنے صدر کے اقدام کو انتہائی غلط کہا جارہا ہے اور جنگ کو روکنے کیلئے آواز بھی اْٹھائی جارہی ہے۔ دیکھئے اب یہ اْونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے حالات سازگار نہیں ہیں نہ ان تینوں ممالک کیلئے اور نہ ہی باقی ممالک کیلئے۔ ابھی پاک بھارت جنگ کے خطرات سرپہ منڈلا رہے تھے کہ یہ نئی صورتِ حال بھی پاکستان کیلئے انتہائی تشویشناک ہے گیہوں کیساتھ اکثر گھن بھی پس جایا کرتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن