کیا ہم تیسری جنگ کے دہانے پر ہیں؟
جب سے اولاد آدم نے مل جل کر رہنا شروع کیا۔ اپنی بستی قبیلہ اور مملکت کو بیرونی عناصر کی یلغار سے بچاؤ کی تدبیر کی دوسرے کی املاک پر ہر جائزو ناجائز طریقے سے یا حیلے بہانے سے قبضہ کرنا اور کمزور کو دبانا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ڈیلومیٹک سروس وجود میں آئی۔ جس کے کندھوں پر بیرون یلغار کو روکنے کی ذمہ داری آتی لیکن جب یہ ڈپلویسی فیل ہو جاتی ہے تو تنازعہ جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ انسانی برادری کے سارے جھگڑے تنازعے اور خونی جنگیں حصول زر، توسیع پسندانہ عزائم اور اپنی برتری منوانے کے لئے ہوئیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جنگیں تلواروں سے ہوتی تھیں لیکن اب نو آبادی سامراج کی جگہ تجارت اور مالیاتی اجارہ داری نے جگہ سنبھال کی۔ امریکہ نے جب دیکھا کہ اسکے اپنے کارخانے نئی مشنری اور ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر پروڈکشن کے اعلیٰ معیار تک پہنچ گئے اور اس نے 7500 ارب ڈالر سالانہ کی تجارتی منڈیوں کھولنے کے لئے ’’گیٹ‘‘ کے مذاکرات پر سٹیم رولر چلا کر نئی بین الاقوامی پالیسی کی منظوری کروا لی تو جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کو امریکن دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کیا کسی ایک دنیاوی طاقت کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے۔ یہ سوچنا ناقبال معافی جرم ہے۔ سولہویں صدر کے آغاز میں خطہ زمین پر دنیاوی قوت کے پانچ عظیم اور بظاہر ناقابل شکست مراکز تھے۔ مشرقی بعید میں منگول خاندان کا بول بالا تھا برصغیر میں خاندان فیصلہ کا طوطی بول رہا تھا۔ ایران میں صفوی حکومت کا ڈنکا تھا۔ ترکی میں سلطنت عثمانیہ کا طبل بج رہا تھا۔ اور یورپ میں ماسکوی اقتدار کا دبدبہ تھا جذبات کی رو میں بہہ کر یہ فیصلہ کرنا کہ امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتا ہے بعیداز قباس ہے۔ امریکہ اور ایران کے مابین جنگ کے شعلے دونوں ملکوںکی اندرونی حکمت عملیوں پر بری طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ امریکہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایران کے 52 مقامات کو نشانہ بنایا ہوا ہے، جبکہ ایران کا دعویٰ یہ ہے کہ اُس نے 37 امریکی ٹارگٹس کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی پوری دنیا کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل سکتی ہے۔ جس کے نتائج میں مالی، اور سیاسی بحرانات کے امکانات موجود ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو اندرون ملک سے اس جارحانہ پالیسی کے خلاف ردعمل مل رہا ہے ایران پر بھی کئی ممالک کا دباؤ ہے کہ جنگ کو آگے بڑھنے سے اور پھیلنے سے روکا جائے۔ امریکہ کی جنوبی کوریا کے ساتھ بھی یہی حکمت عملی رہی انتشار اور کشیدگی آخری حد تک بڑھ گئی۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا کہ بات صلح صفائی تک جا پہنچی۔ امریکہ جنوبی کوریا کے علاوہ کیوبا، وینز ویلا میں بھی یہی حکمت عملی دہرا چکا ہے۔ امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر جنگ کے شعلے بھڑکے تو امریکہ کے اندرونی حالات متاثر ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً اسوقت جبکہ امریکہ کی اکانومی مضبوط سمت چل رہی ہے اور الیکشن قریب ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس جنگ کے نتیجے میں اس پر بھی پابندیوں کا اطلاق ہو گا۔ ’’مائیک پومپیو‘‘ نے خطے کو اس آگ سے بچانے کے لئے جرمن، روس اور فرانس کے وزیر خارجہ سے بھی مشورہ کیا ہے۔ تا کہ خطے کو اندوہناک تباہی سے بچایا جا سکے۔ روس نے بھی واشنگٹن کو محتاط رویہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے برملا اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ پاکستان ایسی صورتحال میں کسی ملک کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ تاہم ان حالات کے باوجود اگر جنگ ہوتی ہے تو پاکستان میں آئل کے نرخ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اکانومی جو کہ ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی ہے۔ مزید زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔ ازاں بعد پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ معیشت کو متاثر کر سکتا ہے۔ حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلہ کرنے کی بجائے خطے میں امن کے لئے کوششیں کریں۔ اور طاقت کی تشنگی بجھا کر اس چنگاری کو بجھائیں کہ اگر وہ بھڑک گئی تو اسکے نتائج ایک صدی تک محیط ہوں گے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایجنڈا امن اور بنیادی حقوق پر ہے۔ لیکن بنیادی حقوق کا تحفظ تو اس بھیریئے کی للکاریں ہیں جس نے ایک میمنے کو دریا کے پانی کے بہاؤ پر دیکھا تو بھیڑیا چلا اٹھا۔ بدتمیز ہم پانی پی رہے ہیں اور تم پانی کو گدلا کر رہے ہو۔ میمنہ نے کپکپاتی آواز میں کہا۔ حضور میں تو پانی کے بہاؤ پر ہوں تو بھیڑیا غر ا کر بولا ’’چوری اور سینہ زوری‘‘کا ثبوت ہم دیکھ چکے ہیں کہ امریکہ کے سیاہ فام اور ایشیائی شہریوں کا تحفظ کہاں ہو رہا ہے؟ فلسطین کی مسجد میں سینکڑوں نمازیوں کو بھون دیا جاتا ہے اور کشمیر اور بوسنیا کا حال بھی ہمارے سامنے ہے۔