ناقص پالیسیوں کے باعث خوراک کا ضیاع
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں انسانی استعمال کے لیے تیار کی جانے والی خوراک کا ایک تہائی حصہ جو تقریبا 1.3بلین ٹن بنتا ہے ضائع ہو جاتا ہے ۔ایک طرف جہاں دنیا میں لاکھوں کروڑوں بھوک سے مر رہے ہیں ناقص خوراک کی وجہ سے متاثرہ بڑھوتری کا شکار ہیں اور نہ جانے کتنے ہی لوگ رات کو روزانہ بھوکا سونے پر مجبور ہیں .تو ہمیں روزمرہ معمول کی اس خرابی اور کوتاہی کو عالمی سطح پر اور پاکستان کے لیول پر جنگی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ خوراک کے زیاں کی دو عملی صورتیں ہیں.جن میں پہلے نمبر پر خوراک کا سپلائی کے دوران ضائع ہونا اور دوسرے نمبر پر اس کا استعمال کرتے ہوئے ضائع ہونا شامل ہیں. اس معاملے کو مزید بہتر طور پر سمجھنے کے لئے خوراک کے زیاں کو چار درجوں میں بانٹا جا سکتا ہے جبکہ تیسرے نمبر پر خوراک کی تیاری کا مرحلہ آتا ہے اور چوتھے میں مرحلے میں خوراک ہماری پلیٹ میں آکر ہمارے ذاتی استعمال میں آتی ہے .یہ چاروں عناصر مل کر خوراک کے نظام کو کھیت سے پلیٹ تک مکمل کرتے ہیں.افسوس کا مقام یہ ہے کہ خوراک کا ضائع ہونا ان تمام چار مراحل کے درمیان اور بالخصوص ہمارے کھانے پینے کے دوران اپنے عروج پر ہوتا ہے .خاص طور پر اگر اس کے پیداواری نظام کو ہی دیکھا جائے تو خوراک کا بڑا حصہ اس بنیادی عمل کے دوران ہی تلف ہو جاتا ہے جس میں قدرتی آفات اور انسانی عمل دخل شامل ہے .اس کے بعد خوراک کی ترسیل کا مرحلہ آتا ہے جس میں غیر سائنسی طریقہ کار کے استعمال, ناقص ذرائع آمدورفت اور نامناسب سہولیات خوراک کے کے ضائع ہونے کا موجب بنتی ہیں. کیونکہ خوراک دو قسم کی ہوتی ہے اس میں ایک قسم جلدی خراب ہونے والی نہیں ہوتی جبکہ دوسری قسم بہت جلد خراب ہو جاتی ہے.جس کو کہتے ہیں Perishable commodity تیسرے مرحلے میں خوراک کی تیاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے یہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دوران تیاری ناقص سہولتوں غیر سائنسی طریقہ کار اور خوراک کے ساتھ لاپرواہی کے برتاؤ کی وجہ سے خوراک کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے .تاہم اس مرحلے کو اگر موثر احتیاط سے برتا جائے تو اس مرحلے پر خوراک کے ضائع ہونے کو اچھے طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔چوتھا اور حتمی مرحلہ خوراک کے استعمال کا ہوتا ہے جس میں عملی اور واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ خوراک کا ایک بڑا حصہ کس بے دردی سے ضائع کر دیا جاتا ہے .اس میں روزمرہ استعمال سے لے کر شادی بیاہ دیگر تقریبات اور زندگی کا ہر معاملہ شامل ہے جس میں خوراک کا استعمال کیا جانا ناگزیر ہوتا ہے گھروں سے لے کر ہسپتال ہو یا خوشی غمی کی کوئی تقریب ہر جگہ خوراک کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے .خاص طور پر جیسے آجکل شادیوں کا سیزن چل رہا ہے اور کھانا لیٹ سرو کیا جاتا ہے پھر کھانے میں متعدد د ڈشز ہونے کی وجہ سے لوگ کھانے کے وقت اپنی پلیٹس کو بیجا طورپر خوراک سے بھر لیتے ہیں .اور خوراک کو ضائع کرنے کی وجہ بنتے ہیں. ہیں شادیوں میں بروقت کھانا اور کھانے میں ایک یا دوڈشز سے زیادہ پر پابندی سے خوراک کے ضائع ہونے کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک بچے کی موت بھوک سے ہو رہی ہے اور روزانہ ہر آٹھ میں سے ایک فرد رات کو بھوکا سونے پر مجبور ہے .پاکستان غذائی طور پر غیر محفوظ ممالک میں شامل ہے اور انتہائی خطرے میں شامل ممالک میں 11ویں نمبر پر ہے۔ ایسے میں خوراک کے ضائع ہونے کے عمل کو روکا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے .تاکہ معیشت پر پڑنے والے بیجا بوجھ کو کم کیا جا سکے .اور قدرتی وسائل کا فطری استعمال کرتے ہوئے خوراک کا محفوظ اور درست استعمال .ممکن بنایا جاسکے حال ہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنے اکتیسویں بورڈ اجلاس میں اضافی کھانے کو ٹھکانے لگانے نے کے قانون کی منظوری دی ہے. جوخوراک کو محفوظ کرنے کی طرف ایک اہم سنگ میل ہے کو حیثیت رکھتا ہے.Disposal of Excess food regulation 2019متفقہ منظوری سے پاس کیا ہے.جس کے مطابق اضافی کھانے کو ہوٹلوں ریسٹورنٹس اور شادی ہالوں سے اکٹھا کر کے مستحق افراد تک پہنچانے کا نظام وضع کیا گیا ہے. اس میں کھانے کی کلیکشن سے لے کر ترسیل تک کا نظام حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ممکن بنانے کا نظام وضع کیاگیا ہے جس میں پنجاب فوڈ اتھارٹی خود بھی اپنا کردار ادا کرے گی اور دوسری سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو اس عمل کا حصہ بننے کی ترغیب دے گی .اورڈی جی فوڈ عرفان نواز میمن کے ویژن کے مطابق کھانے کی کلیکشن سے لے کر اس کی ترسیل تک کے نظام کی نگرانی کرے گی تاکہ صحت مند اور صاف ستھرا کھانا مستحقین تک پہنچایا جا سکے۔ خوراک کے تحفظ کی منزل کی جانب اہم قدم یہ قانون سازی ہے .خوراک کے تحفظ کے اس نظام کو حکومت کے کے احساس پروگرام کے ساتھ منسلک کیا جائے گاجس میں وزیراعظم عمران خان کے ویڑن کے مطابق غریب اور مستحق لوگوں کے دیکھ بھال اور خیال کے لییایک فلاحی پروگرام احساس کے نام سے شروع کیا گیا ہے. جس کا مقصد غریب اور نادار لوگوں کی فلاح و بہبود ہے.یہ پاکستان کو فلاحی مملکت بننا نیکی جانب بہت عملی اور خوبصورت اقدام ہیں.خدا پاکستان کا حامی و ناصر ہو. اور نیا سال پاکستان کے لیے ترقی کامیابی اور خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوآمین۔