بھارتی متنازعہ شہریت بل ،ہندو انتہا پسندی کا مظہر!!!
کاروبار حضرت انسان ہو یا پھرانسانی تہذیب و تمدن اور طرز بودو باش یا کہ پھر زسیت نا تمام کے بار ے میں افکار و نظریات ان سب میں مذاہب بنی نو انسان مرکزی اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں،کچھ قومیں دین کے ساتھ اس حدتک جڑ جاتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کوریاستی اعتبار سے مذہبی ملک ڈیکلیر کرتی ہیں جبکہ کچھ قومیں مذہب کو ثانوی حیثیت قرار دیتی ہیں اور ملک و قوم کو پہلے درجہ پر رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں اورکل 195ممالک میں سے96ممالک نے آئینی لحاظ سے اپنے آپ کوسیکولر یعنی لا دین ڈیکلیئر کر رکھا ہے۔جبکہ99ممالک مذہب سے وابسطہ ریاستی نظام رکھتے ہیں۔ دنیا کی96 سیکولر ریاستوں میں سے ذات پات ،رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز سے با لا تر ہو کراپنے شہریوں کو بنیادی حقوق کی بلا رکا وٹ فراہمی میں 95 ریاستیں ایک طرف اور اسکے بر عکس اپنے شہریوں کے حقوق کی پا مالی، سلب اور جبر کے لحاظ سے واحد ملک بھارت ایک طرف ،یہ کیسا ملک ہے جہاں بھارت تخلیق کے وقت اپنے فائونڈر لیڈر مہاتما گاندھی کے اپنائے جانیوالے سیکولرازم کے بنیادی نظریہ سے منحرف ہوتے ہوئے عظیم ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نظریہ پر سختی سے عمل پیرا ہوتا جا رہا ہے۔
سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے اکھنڈہندو بھارت کی برسر اقتدارانتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی پارٹیشن کے بعد تاریخ کی بد ترین سول ڈکٹیٹرشپ سے کم ثابت نہیں ہوئی اور اسکی بنیادی وجہ ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے جنم لیکر بی جے پی کی کوکھ میں پرورش پانے ولا نام نہاد سیاسی گماشتہ بھارتی وزیر اعظم اور دور حاضر کافاشسٹ اور ہٹلر پالیسیوں کا علم بردار نریندرا مودی ہے جو کہ اپنی ظالمانہ پالیسیاںلاگو کرتے ہوئے بھارتی اقلیتوں پر زمین تنگ کرتا چلا جا رہا ہے اور مودی کی آمرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کا براہ راست خصوصی ٹارگٹ بھارتی مسلمان ہیں۔ ویسے تو بھارتی مسلم دشمنی کی بے شمار مثالیں اور ثبوت ہیں لیکن نمایاں حالیہ اقدامات میںچار ماہ قبل مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کا ختم کرنا اور مقبوضہ وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بناتے ہوئے دنیا کا لمبا ترین کرفیو لگانا ہے جو کہ ابھی تک چل رہا ہے شا مل ہے۔جب اس حرکت سے بھی نریندرا مودی اور اسکے حواریوں کو سکون نہ ملا تو 12دسمبر 2019کو بھارتی پارلیمنٹ راجے سبھا نے بھارتی شہریت کے قا نون میں ترمیم کرتے ہوئے اسے تبدیل کر دیا اور اسے متنازعہ حیثت میں ہیCAB(Citizenship Amendment Bill) منظور کروالیااور اس نئے متنازعہ بل کے تحت بھارت کے تین ہمسایہ ممالک پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنیوالے 6 مذاہب ہندو ،سکھ ،عیسائی ،پارسی ، بدھ مت اور جین مت سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو بھارتی شہری تصور کرتے ہوئے فوری شہریت دیدی جائیگی چاہے انکے پاس قانونی دستاو یز موجود ہو یا نہ ہو جبکہ مسلمان تارکین وطن اس شہریت حاصل کرنے کا استحقاق نہیں رکھ سکتے دوسرے لفظوں میں اس ترمیم کو سیاسی پناہ کا نام دیا جا رہا ہے۔اس شہری تر میمی بل کے رد عمل میںبھارت کے پورے شرق غرب میں احتجاجی مظاہرے شروع ہیں ۔اور ان مظاہروں کو روکنے کیلئے بھارتی مرکزی اور صوبائی حکومتیں بد ترین ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے جس کا پہلا اور بڑا شکار دہلی کی یونیورسٹی جامیعہ ملیہ اسلامیہ ہوئی جہاں طلبہ و طالبات کے ہوسٹلوں میں گھس کے ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے تین ہفتوں سے جاری ان مظاہروں میں درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیںاور ہزاروں مظاہریں گرفتار ہیں متاثرہ نمایا ں شہروں میں دہلی،ممبئی،بنگلور ،کلکتہ و دیگر شہر اورمکمل صوبہ آسام ،گجرات اور اتر بردیش شامل ہیں۔ان احتجاجی مظاہروں کی نمایاں اور حیرت انگیز بات یہ کہ اسکے مظاہرین اور قائدین پورے بھارت کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے طالبعلم ہیںجن میں خاص طور دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ کی علی گڑھ یونیورسٹی شامل ہیں اس بڑھ کر یہ کہ ان احتجاجی مظاہروں میںنہ صرف مسلمان طلبہ و طالبات بلکہ سر کردہ ہندو طلبا تنظیمیں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی ہیں اور بلا تفریق مسلم ہندو طلبا کے منہ سے ترنم میں گائے جانے والے حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے انقلابی کلا م سخت ترین سردی کے باوجود احتجاج کے لئے نکلنے والے لاکھوں بھارتی طالبعلموں کی تحریکی روحوں کو گرما رہے ہیں ۔بھارت کے اس متنازعہ شہری بل کے خلاف اور مظاہرین کے حق میں دوسر ی بڑی سیاسی جماعت کانگرس کے علاوہ بایئں بازو کی بہت سی تنظمین اور ایکٹیسوسٹ بھی میدان میں اتر چکے ہیں اور یہاں تک کہ کئی صوبوں کے وزر اعلیٰ نے بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس کر دہ اس متنازعہ بل پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیا ہے۔عوام کے اس مجموعی رد عمل نے یہ بات واضع کر دی کہ جب انتہا پسند لوگ جمہوریت کا سہارا لے کر تختہ حکومت تک رسائی حاصل کر لیں تو وہ ایک ریاست کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ عوامی منشا سے ہٹ کر جب حکومتیں اپنی پالیسیاں تھوپتی ہیں تو وہ ملک تباہی کے دہانہ پر کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ آج کا بھارت۔بھارت میں اس وقت علیحدگی کی بڑی چھوٹی کم و بیش 65 تحریکیں چل رہی ہیں جن میں نمایاں ،کشمیر ،خالصتان ، آسام اورناگا لینڈکی تحریکیں زور پر ہیں جنہیں بھارتی فورسز با زور شمشیر کچل رہا ہے۔ اور ان نوجوان خون کی جہد مسلسل کی بدولت وہ دن دور نہیںجب بھارت اپنی اکٹھنڈتا کا خواب ریزہ ریزہ ہوتا دیکھے گا اورمتحدہ روس کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔