• news
  • image

شوکت خانم ہسپتال : خدمت کے پچیس سال

سن 1985میں عمران خان کی شفیق والدہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ایک بیٹے کے لئے یہ دکھ انتہائی جاں گسل تھا اور سب سے زیادہ رنجیدہ کردینے والی بات یہ تھی کہ اس وقت پاکستان میں کینسر کا کوئی خاطر خواہ علاج تھا نہ ہی کوئی ہسپتال ۔ والدہ کے علاج کے دوران اس نے پاکستان کے لاتعداد مجبور اور بے بس کینسر کے مریضوں کو کسمپرسی کی حالت میں موت کا نوالہ بنتے دیکھا توپاکستان میںایک ایسا ہسپتال بنانے کا ارادہ کیاجہاں کینسر کے علاج کی جدید ترین سہولیات ہر فرد کے لیے بلا امتیاز دستیاب ہوں۔ جب اس نے شوکت خانم ہسپتال بنانے کا اعلان کیا تو لوگوں نے کہا کہ کینسر کا ہسپتال نہیں بن سکتا اگر بن بھی گیا تو مریضو ں کا مفت علاج نہیں ہوسکتا ۔ لیکن ہسپتال بن بھی گیا اور 75فیصد سے زائد مریضوںکا مفت علاج بھی ہو رہا ہے اور آج اس ہسپتال کو 25سال مکمل ہونے پر سلور جوبلی منائی جا رہی ہے ۔ اگر انسان کی نیت صاف اور مقصد نیک ہو تو اللہ تعالیٰ کامیابی دے دیتا ہے۔ پھر اس عظیم ہسپتال کا افتتاح عام رسم و رواج کے بر عکس ہسپتال کی پہلی مریضہ کے ہاتھوں کروایا گیا۔ ایسی مثال بھی د نیا میں کم ہی ملتی ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال نے ایک قلیل مدت میں 29دسمبر 1994کو اپنے دروازے مریضوں کے لیے کھول دیے۔ خدمت کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا اور مارچ 2011 میں پشاور میں دوسرے شوکت خانم ہسپتال بنیاد رکھی گئی جو 29دسمبر 2015 کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔ تیسرا شوکت خانم ہسپتال کراچی میں بننے جا رہا ہے اور پھر چوتھا ہسپتال جنوبی پنجاب میں تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر میں مریضوں کے علا ج کے لیے وہ جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی موجودہے جو کسی بھی بین الاقوامی ہسپتال میں ہونی چاہیے اور یہاں علاج کرنے کا پروٹوکول بھی عالمی ہسپتالوں کی طرزکا ہی ہے ۔اس ہسپتال کے قیام سے پاکستان میں کینسر کے علاج کی سہولیات میں انقلابی تبدیلیاں آئیں ۔ اس ہسپتال نے کینسر کے مریضوں کو زندگی کی امید دلائی ورنہ اس سے پہلے جس کسی کو کینسر ہو جاتا تھا وہ اپنی زندگی ختم ہی سمجھتا تھا اسی امید کے تحت ہزاروں مریض اب صحت مند زندگی گزار رہے ہیں ۔ شوکت خانم ہسپتال کی جانب سے جہاں کینسر کے علاج کی جدید ترین سہولیا ت فراہم کی جاتی ہیں وہیں کینسر سمیت دیگر امراض کے بارے میں آگاہی پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں۔ یہاں کینسر کے بارے میں ریسرچ کاشعبہ اور باقاعدہ کینسر رجسٹری کااداراہ بھی کام کر رہا ہے۔
اس ہسپتال کو بنانے اور چلانے میں جہاں پاکستان میں موجود لوگوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا وہیں دنیا بھر میں پھیلے اوور سیز پاکستانیوں کی خدمات بھی نا قابل ِ فراموش ہیں ۔ شوکت خانم ٹرسٹ نے دیگر ممالک جیسے دوبئی ، یورپ، کینیڈا ، امریکا، آسٹریلیا اور جاپان میں اپنے دفاتر کھول لیے ہیں تا کہ وہاں پر پاکستانی عوام اور دیگر لوگوں کو چندہ دینے میں کوئی دشواری نہ ہواور وہاں کے لوگ بھی نہ صرف ہسپتال کی کارکردگی سے آگاہ رہ سکیں بلکہ اپنے طور پر ہسپتال کے لیے آسانی سے کام بھی کر سکیں۔
پاکستانی عوام کی لیے فخر کی بات ہے کہ یہ دنیا میں پہلا پرائیویٹ ہسپتال ہے جو کینسر کے 75% سے زائد مریضوں کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کررہا ہے اور مستحق مریضوں کے علاج پریہاں اب تک 39ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جا چکی ہے ۔ دنیا بھر میں کینسر کے مرض کی اس قدر مفت علاج کی مثال اور کسی ہسپتال میں نہیں ملتی۔ کینسر کے علاج کے لئے جدید ترین مشینوں اور تجربہ کار ڈاکٹرز سے لیس شوکت خانم ہسپتال ایسا ادارہ ہے جہاں پر مریضوں کو بلاتفریق ، رنگ نسل مذہب یکساں سہولیات حاصل ہیں۔اگرچہ شوکت خانم ہسپتال کینسر کے مریضوں کے لئے بنایا گیا ہے تاہم اس ہسپتال میںایڈز ،HIV ، ہپاٹاٹیس، ٹی۔بی جیسی موذی بیماریوں کی نہ صرف تشخیص بلکہ علاج کی بھی مکمل سہولیات موجود ہیں۔یہ ہسپتال نہ صرف مریضوں کا علاج بلکہ مرض سے آگاہی ،ریسرچ،ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر سٹاف کی ٹریننگ پر بھی بڑی کامیابی سے کام کررہا ہے جس کے بڑے خاطر خواہ نتائج بھی حاصل ہوئے ہیں۔شوکت خانم ہسپتال میں مریضوں کو دی جانے والی اعلیٰ معیار کی سہولیات کے پیش نظر اس ہسپتال کی خدمات کو نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی سراہا گیا اور طبی میدان میںاسی بہترین کارکردگی کی بدولت اعلیٰ ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ۔ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کے دونوں ہسپتالوں کو جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل سے ایکریڈیٹیشن حاصل ہے ۔
علاج کے علاوہ کینسر اور دیگر بیماریوں کی تشخیص کے حوالے سے بھی اس ہسپتال کو مستند ادارہ مانا جاتا ہے ۔ ہسپتال نے عوام کی سہولت کے لیے تقریباً سارے پاکستان میں اپنے لیبارٹری کولیکشن سنٹرز کھول رکھے ہیں جہاں ان کو اپنے گھر سے قریب ہی جدید ترین ٹیکنالوجی اور طریقہ کار کے تحت تمام امراض کی تشخیص کے مستند نتائج فراہم کیے جاتے ہیں پھران سنٹرز سے حاصل ہونے والی آمدنی کینسر کے مریضوں کے مفت علاج پر خرچ کی جاتی ہے۔کچھ لوگوںکو شکایات ہیں کہ شوکت خانم ہسپتال میں ان کا علاج نہیں کیا گیا۔ ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ آنے والے تمام مریضوں کا علاج کیا جائے لیکن ہسپتال کے محدود وسائل کے پیش ِ نظر ہم ایسا نہیں کر سکتے ان شکایات کی دوسری وجہ کینسر کے مریضوں کی تعداد میں ہونے والا اضافہ بھی ہے ۔ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد کینسر کے نئے کیسز سامنے آتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد کو اکیلا شوکت خانم ہسپتال علاج کی سہولیات فراہم نہیں کرسکتا جبکہ ہر مریض کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا علاج شوکت خانم ہسپتال سے ہی ہو لہٰذا ضرورت ہے کہ پاکستان میں کینسر کے مزید ہسپتال بنائے جائیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کینسر کی ادویات اور آلات کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہسپتال کا سالانہ بجٹ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ رواں سال اس کا بجٹ 17 ارب روپے ہے جب کہ لاہور ہسپتال کی تعمیر کا کل خرچہ 75 کروڑ روپے تھا اگر دیکھا جائے تو شوکت خانم کینسر ہسپتال کے سالانہاخراجات میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن پھر بھی ہسپتال کے سپورٹرز کی مدد سے ہر سال یہ اخراجات پورے ہو جاتے ہیںکیونکہ عوام کو یقین ہے کہ ان کا دیا ہوا پیسہ پوری ایمانداری کے ساتھ مستحقین کی خدمت میں خرچ ہوتا ہے۔
شوکت خانم ہسپتال اپنے قیام سے اب تک زیادہ سے زیادہ مریضوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور لاہور کے بعد پشاور کا ہسپتا ل اسی جذبے کا مظہر ہے جبکہ کراچی میں تیسرے ہسپتال کے منصوبے پر بھی جلد کام شروع ہونے والا ہے ۔اس ادارے کا مشن ہے کہ آئندہ 25 سال میںپاکستان میں کینسرکے تمام مریضوں کو ان کے گھرسے قریب ہی کینسر کی تشخیص و علاج کی جدید ترین سہولیات حاصل ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہسپتال پاکستانی عوام نے بنایا تھا، عوام ہی چلا رہے ہیں اور آئندہ بھی نہ صرف چلتا رہے گا بلکہ مزید ہسپتال بھی بنتے جائیںگے ۔شوکت خانم ہسپتال کی کامیابی ڈاکٹرز، انتظامیہ اور دیگر تمام سٹاف ممبرز کی لگن ، محنت اور انسانی خدمت کے جذبے کی بھی مرہون منت ہے۔یقین ہے ،انشاء اللہ یہ ہسپتال اپنے سپورٹرز، بہی خواہوں، مخیر حضرات اور سٹاف کے بے لوث جذبے کی بدولت دکھی انسانیت کی خدمت کے اس مشن کو جاری و ساری رکھے گا۔شوکت خانم ہسپتال کو خدمت اور پاکستانی قوم کو امید کے 25 سال مبارک ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭

خواجہ نذیر احمد

خواجہ نذیر احمد

epaper

ای پیپر-دی نیشن