مشرف کیس: 2 ماہ میں اپیل نہ آ ئی تو ہائیکورٹ کا فیصلہ حتمی ہو جائیگا
لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی طرف سے خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست منظور کرتے ہوئے انتہائی اہمیت کے حامل قانونی نکات کی وضاحت کی۔ جن کے مستقبل میں آئینی و قانونی اور سیاسی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ عدالت عالیہ کی طرف سے سابق صدر جنرل ریٹائرد پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کی طرف سے دو ماہ میں اپیل دائر نہ کی گئی تو عدالت عالیہ کا فیصلہ حتمی اور مستقل شکل اختیار کر جائے گا۔ فاضل عدالت کی طرف سے خصوصی عدالت کی تشکیل کے ساتھ کریمنل ترمیمی سپیشل ایکٹ1976ء کے سیکشن9 کو بھی کالعدم قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل ہو سکتا ہے۔ فاضل عدالت نے درخواست گزار کی طرف سے اٹھائے گئے اس قانونی نکتے سے اتفاق کیا کہ اٹھارویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل چھ میں ’’معطل کرنا‘‘ اور ’’شراکت دار‘‘ کے الفاظ کا ماضی کے اقدامات سے اطلاق نہیں ہو سکتا۔ درخواست گزار نے ایک اور قانونی نکتے کا سہارا لیتے ہوئے وکلاء کے توسط سے دلائل دیئے کہ دستور پاکستان کے آرٹیکل چھ کا استغاثہ وفاقی حکومت ہی دائر کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل90 اور 91 کے تحت وفاقی حکومت کابینہ پر مشتمل ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف دائر آرٹیکل چھ کے تحت دائر کیس میں وفاقی کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی۔ عدالتی فیصلے کے بعد قانونی طور پر اس بات کو محسوس کیا جانے لگا ہے کہ دستور پاکستان میں ترمیم کر کے یہ واضح کیا جائے کہ آئین کی پامالی کو کس طرح غداری قرار دیا جا سکتا ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت کے روبرو اس دلیل کا بھی سہارا لیا کہ کئی مقدمات میں عدالتیں انتظامیہ کے اقدامات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیتی ہیں مگر اس سے مراد غداری تو نہیں لی جا سکتی۔