افغان طالبان نے عارضی جنگ بندی کی پیشکش کر دی، دستاویز زلمے خلیل کے حوالے: امن معاہدے کی طرف اہم پیشرفت: شاہ محمود
اسلام آباد +دوحہ( سہیل عبدالناصر+نوائے وقت رپورٹ) طالبان نے افغانستان میں عارضی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔ دستاویزات امریکی نمائندہ کے سپرد کردیں۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق طالبان نے ایک رات پہلے دوحہ میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں پیشکش کی دستاویزات دیں ۔ سینئر طالبان عہدیدار کے مطابق جنگ بندی کی ایک پیشکش ہے جو 7 یا 10 دن کی ہوگی۔ 19 سال سے جاری امریکہ اور افغانستان کی جنگ کے خاتمے کے لیے دونوں فریقین میں مذاکرات جاری ہیں جبکہ افغان طالبان عارضی فائربندی پر تیار ہو گئے ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے نے افغان امن مذاکراتی عمل سے باخبر شخصیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان نے عارضی فائربندی سے متعلق دستاویز امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد کے حوالے کر دی ہیں۔ افغان طالبان کی اس پیشکش کو کسی ممکنہ افغان امن معاہدے اور 19 سالہ جنگ کے خاتمے کے حوالے سے نیا موقع تصور کیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی سے متعلق دستاویز گزشتہ شام قطر میں امریکی مذاکرات کار کے حوالے کی گئی۔ دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغان طالبان پرتشدد کارروائیوں میں کمی لانے پر تیار ہو گئے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر ایسی چہ مگوئیوں میں اضافہ ہو گیا ہے کہ طالبان امریکہ مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت ہونے والی ہے، اس کے نتائج قریب ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا مختصر ویڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ آج مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ طالبان نے تشدد میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور یہی مطالبہ بھی تھا۔ یہ امن معاہدے کی جانب ایک قدم ہے۔ تاہم انہوں نے زیادہ معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اس تبصرے پر غور کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں افغان طالبان اور امریکہ ایک امن معاہدے کے بہت ہی قریب پہنچ چکے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ امریکی صدر نے یہ اعلان طالبان کی جانب سے کیے جانے والے پے در پے بڑے حملوں کے بعد کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایرانی لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں ایران امریکہ کشیدگی بڑھنے کے بعد افغان طالبان کا کہنا تھا کہ تہران واشنگٹن کشیدگی کے باعث دونوں فریقین میں مذاکرات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ متشد د رویوں اور حملوںمیں کمی کا جو مطالبہ تھا طالبان نے اس پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے امن معاہدے کی طرف ایک قدم اور اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اپنے خصوصی ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے امریکہ اور افغانستان کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔ پاکستان خواہشمند تھا مذاکرات پر کوئی پیش رفت ہو۔ کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغانستان اور اس خطے کو امن و استحکام کی ضرورت ہے۔ آج اس سلسلے میں ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان نے جو مصالحانہ زمہ داری اٹھائی تھی اسے با عافیت نبھایا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ خطے میں امن قائم ہو اور اس کا افغانستان اور پاکستان کی عوام کو فائدہ ہو۔ طالبان نے اب تک افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرن یسے انکار کیا ہے۔ طالبان افغان حکومت کو غیرقانونی سمجھتی ہے اور خدشہ موجود ہے کہ امریکیوں کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے قطع نظر افغان حکومت سے لڑائی جاری رہے گی۔افغان طالبان نے گیند اب امریکہ کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ دیکھنا ہے کہ امریکہ اب کس انداز میں پیشرفت کرتا ہے۔ جنگ بندی کا مطالبہ امریکہ کی طرف سے تھا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق گزشتہ برس دسمبرکے دوران قطر میں ہونے والے مذاکراتی دور کے دوران امریکہ کے خصوصی نمائندے ذلمے خلیل زاد نے اس امریکہ تجویز کا اعادہ کیا کہ طالبان، بڑے شہروں پر حملے روک دیں تا کہ تشدد میں کمی آئے۔ اس ذریعہ کے مطابق انہوں نے یہ بڑی پیشکش کی کہ طالبان ان علاقوں میں جنگی کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں جہاں ان کی عملداری قائم ہو چکی ہے لیکن افغان حکومت ، اس عملداری کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اشرف غنی کی زیر سرکردگی افغان حکومت، اس مذاکراتی پیشرفت سے بھی آگاہ ہے اور بخوبی سمجھتی ہے کہ بات چیت کی کامیابی میں ان کا مستقبل مخدوش ہے کیونکہ نئے سیاسی منظر نامہ میں طالبان یا ان کے اتحادی ہی موجود ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان صدارتی ترجمان تقریباً روزانہ یہ بیان داغ رہے ہیں کہ طالبان مکمل جنگ بندی کریں ورنہ افغان قوم کے غضب کیلئے تیار رہیں۔ ترجمان اس حقیقت سے واقف ہیں کہ طالبان مکمل جنگ بندی نہیں کریں گے۔ اس ذریعہ کے مطابق امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اب واقعی فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ بات چیت میں مخلص ہے۔ بات چیت کی کامیابی کیلئے جاری موسم سرما کے چند ماہ باقی ہیں۔ موسم بہار، افغانستان مین جنگ کا موسم ہے۔ ان دنوں موسم کی شدت کے باعث لڑائی کی شدت پہلے ہی کافی کم ہے اور فریقین پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے ہیں۔ اس سرما میں معاہدہ طے پا جاتا ہے تو کامیابی کی ضمانت ہے۔ معاہدے کے بغیر موسم بہار شروع ہو گیا تو جنگ کا دورانیہ اور شدت خود بخود بڑھ جائے گی اور معاملہ کسی ایک فریق کے بس میں نہیں رہے گا۔