لکیریں
’’مکان کی بہت سی قسطیں ابھی رہتی ہیں۔ بچے دیواروں پر پن سے کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ہیں۔ میں جتنا گھر بنانے کی کوشش کررہا ہوں۔ تمہارے بچے اتنا ہی بگاڑ دیتے ہیں۔ تم سے یہ ایک کام بچے بھی نہیں سنبھلتے ‘‘ میں جھنجھلا کر اپنی بیگم سے مخاطب ہوا۔ ’’میں بھی گھر بنانے کی کوشش کر رہی ہوں‘‘ اس نے شاید سرگوشی کی…رات کو اٹھ کر میں نے دیواریں صاف کرنا چاہئیں۔ غور سے دیکھا تو میرے بیٹے نے ان پر ٹیڑھی میڑھی لکیروں سے میرا عکس بنانے کی کوشش کی تھی۔ سکول بیگ کھول کر اس کی کاپی پڑھی ۔ ’’میری پسندیدہ شخصیت‘‘ پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا اور نیچے لکھا تھا۔ ’’میری پسندیدہ شخصیت میرے بابا ہیں۔‘‘ یہ مضمون اس کی ماں نے ہی تو اسے لکھوایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ چار ہاتھوں کا کام دو ہاتھوں سے کرنے والی عورت، رات کو آخر میں ہونے والی عورت، میرے بچوں کی اچھی تربیت کرنے والی عورت واقعی میرا گھر بنا رہی تھی…میں دیوار پر لکھی تحریروں پر لکڑی کے فریم لگوانے لگا۔ رفتہ رفتہ میرے گھر کی وہ دیوار سج گئی۔ بنا کیمرے کے لی گئی یا بنائی گئی وہ ٹیڑھی میڑھی تصویریں مجھے عزیز تر ہوتی چلی گئیں۔ اب جب کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ میری اولاد مجھے چلتے ہوئے تھام لیتی ہے۔ اپنے قدموں کو میرے قدموں سے پیچھے رکھتی ہے تو میں دور سوئیٹر بُنتی اپنی بیگم کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا لیکن اس نازک جسم کے دل میں اللہ پاک نے اتنی طاقت رکھ دی ہے کہ یہ اگر سادہ لوح بھی ہو تو بھی گھر کی بنیادیں مضبوط بنا دیتی ہے۔ یہ بارش میں چھت کو ٹپکنے نہیں دیتی۔