علاقائی کشیدگی اورکشمیریوں کا یوم حق خودارادیت
دنیا کے بعض ترقی یافتہ اور خوشحال وہ ممالک جن پر سُپرپاور اور منی سپرپاور ہونے کانشہ بری طرح سوار ہے اپنی آئینی حدود و قیود سے اس حد تک تجاوز کر چکے ہیں کہ معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور، غریب اور نادار ممالک کووہ اپنا محکوم تصور کرنے لگے ہیں۔ ایسے ممالک کے خلاف ترقی یافتہ بعض ممالک تو انسانی رویوں کی توہین تک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مگر افسوس! صد افسوس! کے کمزور ممالک کی آواز سننے والا آج کوئی بین الاقوامی ادارہ موجود نہیں…؟ طاقتور ممالک کی اپنی الگ پالیسیاں اور اپنے الگ عالمی ضابطے ہیں جنہیں وہ نادار اور غیر ترقی یافتہ ممالک پر جب چاہے لاگو کر دیتے ہیں…؟؟
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ قوی ایمان ہے کہ ’’سپرپاور‘‘ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات برکات ہے۔ وہ ہی چھوٹی اور بڑی طاقت دینے پر قدرت رکھتا ہے…وہ جب ’’کن فیکون‘‘ کہتا ہے تو پھر کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم کو روک سکے۔ ؟؟ مگر! دوسری جانب اس دنیا میں امریکہ نے خود ہی اپنے آپ کو ’’سُپرپاور‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ 2020 ء کا آغاز ہوتے ہی اس ’’سپرپاور‘‘ نے مسلم ملک ایران کے خلاف پہلا غیر انسانی قدم اُٹھا کر اپنی اقتصادی اور عسکری قوت کی دنیا کے دیگر آزاد اور خود مختار ممالک میں دھاک بٹھانے کی ایک ایسی کوشش کی ہے جس سے دنیاکے دیگر پُرامن ممالک کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پاسداران انقلاب کی قومی فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی جو عراق کے دورہ پر تھے بغداد کے ہوائی اڈے پر اُن کی کار کو امریکی فضائی ڈرائون نے نشانہ بنا کر موقع پر ہی شہید کر دیا۔ جنرل سلیمانی کی موت پر اُنکی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت سے بھی یہ ثابت ہو گیا کہ جنرل سلیمانی حقیقتاً ایران کے ہیرو تھے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ ’’سخت ترین بدلہ‘‘ ہو گا۔ ایران کی جانب سے سخت انتقام کے اس اعلان کے ساتھ ہی خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ اس بات میں بھی قطعی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کا جنگی بجٹ اس وقت 700 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ عسکری قوت میں امریکہ گو زیادہ طاقتور نظر آتاہے تاہم ایران کو سب سے بڑا فائدہ اسکی جغرافیائی حدود سے ہے جہاں سے 40 فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ اس طرح ایران کو حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کرنا اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں تعینات امریکیوں کو چھوٹے میزائل سے نشانہ بنانا آسان ہو گا…؟
برطانوی تھنک ٹینک ’’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈی‘‘ کے ایک محتاط سروے کے مطابق ایران کے پاس 5 لاکھ 23 ہزار کے قریب فوجی قوت جن میں ساڑھے 4 لاکھ کے قریب روایتی فوج جبکہ بقایا ’’پاسداران انقلاب‘‘ کے جوان ہیں…’’پاسداران انقلاب‘‘ ایک ایسی انقلابی فوج ہے جس کی بنیاد 40 برس قبل رکھی گئی جس کا بنیادی کام اسلامی نظام کا دفاع ہے۔ اس فوج کو سٹریٹجک ہتھیاروں پر مکمل کنٹرول ہے۔ ’’پاسداران انقلاب‘‘ کے زیر نگرانی ایک اور رضاکار فوج بھی ہے جس میں ہزاروں افراد خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان حالات میں ایران امریکہ میں اگر خوفناک جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان اپنی پالیسی واضح کر چکا ہے کہ پاک سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ احمد قریشی، فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے واضح طور پر دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ خطے میں امن خراب کرنے والوں کا پاکستان ہرگز حصہ نہیں بنے گا کیونکہ بقول وزیر اعظم عمران خان افغانستان کی صورت حال کے بعد پاکستان اب کسی کی جنگ لڑنے کا قطعی متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی کا کولیشن پارٹنر بنے گا…!!
اب یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ پر منحصر ہے کہ پاکستان کے اس دوٹوک فیصلے کو وہ کس انداز سے لیتے ہیں…کہ اس جنگ کا اگر آغاز ہوا تو بلاشبہ یہ جنگ عظیم سوئم ہو گی جس روز یہ سطور شائع ہونگی امریکہ، ایران سے پیدا شدہ خطے کی کشیدگی کی صورت حال کیا ہو گی۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے؟ دوسری جانب ’’منی سُپرپاور‘‘ کے خواب دیکھنے والا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھارتی مسلمانوں کے خلاف ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جس سے اس کی ذہنی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف حالیہ شہریتی بل اور گزشتہ 71 برس سے کشمیریوں پر ڈھائے ظلم و جبر و استبداد اور اُنہیں آزادی کے حق سے محروم رکھنے کے مجرمانہ فعل کا مرتکب ہوا ہے جس پر عالمی قوتوں کی بے حسی اور خاموشی مہذب دنیا کے لیے سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ مظلوم کشمیری 7 دہائیاں گزرنے کے باوجود بھارتی افواج کے ظلم و بربریت کا آج بھی شکار ہیں اور یہی وجہ بنیادی وجہ ہے جس سے دنیا بھرمیں پھیلے کشمیری ہر سال جنوری میں یوم حق خودارادیت منانے پر مجبور ہیں۔
لندن میں ہائی کمشن کے زیر اہتمام اس سال بھی کشمیریوں سے یکجہتی کے طور پر اگلے روز یوم حق خودارادیت انتہائی جوش اور جذبہ سے منایا گیا۔ ہائی کمشن کے سبزہ زار پر منعقدہ اس تقریب میں برطانیہ کے مختلف شہروں سے آئے کشمیریوں کی ایک بھاری تعداد نے شرکت کی۔ سبزہ زار کو کشمیریوں پر کئے بھارتی مظالم کی تصاویر سے سجایا گیا تھا ہائی کمشنر محمد نفیس زکریا نے کشمیریوں کے اس مخصوص دن کے حوالہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا! کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے یہ دن ہر سال 5 جنوری کو منایا جاتا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور نہتے کشمیریوں پرکھلم کھلا بربریت کے خلاف عالمی برادری کو بیدار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی افواج کے مظالم سے 8 ملین سے زائد کشمیری اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔ نوجوانوں اور خواتین بچوں کو گھروں سے زبردستی نکال کر جعلی مقابلوں میں شہید کیا جا رہا ہے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کی تنظیموں JKCHR, I.PTK, IPHRC اور دیگر عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق ابتک 15 لاکھ سے 1 ملین کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ’’گمنام قبریں‘‘ بھارتی ظلم و بربریت جیتی جاگتی تصاویر ہیں۔ میڈیکل سہولتیں فراہم نہ کرنے کی وجہ سے بیشتر کشمیری علیل افراد کو گھروں میں ہی دفن کرنے کے واقعات کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ان حالات کا مودی اب بھی اگر ادراک نہیں کرتا تو اگلا مرحلہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’سیاسی موت‘‘ کا ہو گا۔