’’بے حس قوم‘‘
آج کا دن بے انتہا سرد تھا۔گروسری کیلئے جوں ہی گھر سے نکلی تو بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔۔۔آسمان تو کئی دنوں سے ابر آلود تھا۔ گھر کے قریب ہی ایک بڑے سے سٹور میں گروسری جلدی جلدی ختم کی۔۔۔اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی سمت میں روانہ ہونے ہی والی تھی کہ بارش شروع ہو گئی۔
چلتی گاڑی سے سڑک کے کنارے فروٹ کی ریڑھی کے پاس ایک شخص کو دیکھا تو وہ بارش سے بھیگ رہا تھا۔ میں نے ڈرائیور کو سڑک کے کنارے گاڑی روکنے کیلئے کہا۔
گاڑی رکی تو دیکھا تو وہ ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ میں نے اس سے کہا۔’’آپ کے پاس چھتری نہیں ہے‘‘۔۔۔
نہیں۔۔۔بی بی آپ پھل خرید لیں تا کہ میں جلدی گھر چلا جائوںبارش میں آپ کو یہاں نہیں کھڑا ہونا چائیے۔ بیمار پڑ جائیں گے۔ بی بی۔۔۔وہ افسردگی سے بولا۔
روٹی کا مسئلہ ہے ۔۔۔مجبوری سے کھڑا ہوں میں نے کچھ فروٹ خریدا۔۔۔اور وہاں سے کوچ کیا۔۔۔ تو رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ہمارے لوگ اتنے بے حس ہیں جواس غریب آدمی کو بارش میں فروٹ بیچتے ہوئے دیکھ رہے ہیں مگر قریب آن کر اس کی مدد نہیں کر رہے تھے اور اسکی بے حسی پر مجھے افسوس بھی آرہا تھا۔ ہمارے ملک میں اس قدرغربت ہے۔۔۔اور مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔۔۔انہی غریبوں نے نئی حکومت کو ووٹ دئیے تھے کہ ہمارے حالات بدل جائیں گے۔۔۔مگر افسوس۔۔۔حالات تو ایک طرف یہ بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے موسلا دھار بارش میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔۔۔صرف روٹی کا مسئلہ دامن گیرہے۔۔۔
پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ مگر ان کی روک تھام کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اچھے گھروں کے بچے ڈکیتیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیا ان کے گھر کی تربیت کا اثر ہے یا وہ سوسائٹی کا شکار ہیں۔۔۔میرے خیال سے یہ سب خرافات بے روزگاری کی وجہ سے ہے۔۔۔بچے تعلیم یافتہ ہیں مگر ان کو ملازمت نہیں ملتی۔۔۔زمانہ بدل گیا ہے۔ صدی بدل گئی دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ لوگ ترقی کرنے کی بجائے پستی کی طرف گامزن ہیں اس ملک کی آب وہوا، اچھا پھل،اچھی سبزیاں۔ خداکی ہر نعمت یہاں پر میسر ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ نظام اچھا نہیں ۔ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ہر شخص کو محنت کرنی پڑے گی ۔ خصوصاََ پولیس کے ادارے کی ازسرنو تنظیم نہ کی جائے تو مسائل جوں کے تو رہیں گے۔
تقسیم ہند سے پہلے جالندھر کے قریب ایک قصبہ فلورتھا جہاں پولیس اکیڈمی ٹریننگ دیا کرتی تھی، وہاں تربیت یافتہ امن عامہ کے مسائل اور تفتیش کو خوب سمجھتا تھا۔ اس کے برعکس جیسے باقی ادارے تباہ ہوئے ہیں۔ اس طرح پولیس کا ادارہ بھی بچ نہیں سکا۔ سفارشوں کی بنیاد پر پولیس میں بھرتیاں یک دم بند کر دینی چائیں اور ان کی تربیت کاکول اکیڈمی جہاں فوجیوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس نمونے پر ہونی چائیے سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا اپنا اخلاق مرتب کرنا چائیے بدعنوان لوگوں کی پشت پناہی نہیں کرنی چائیے۔ نظام کے اصلاح کی طرف کوئی نہیں آتا جب تک اچھا سسٹم نہیں بنے گا ہمارا ملک خوشحال نہیں ہوگا۔
و ہ ٹنگ سے پہلے صاحب اقتدار نے بہت سے وعدے کئے تھے اگر نئے پاکستان کا نعرہ لگا تھا تو اس نعرے کو عملی جامہ پہنانا چائیے۔۔۔غریب لوگوں کی غربت دور کرنی چائیے تھی۔ بے سہارا لوگوں کو شیلٹر اور الائونسز دیکر اپنا وعدہ پورا کرنا چائیے تھا عمر رسیدہ لوگ جو روٹی کیلئے بارش میں مزدوری کرتے ہیں۔۔۔انہیں روٹی مہیا کرنی چائیے تاکہ وہ غربت ،افلاس اور تنگ دستی سے نجات پا سکیں۔۔۔شاید ڈکیتی کی وارداتیں بھی ختم ہو جائیں۔۔۔اور لوگ گداگری سے بھی باز آجائیں۔ یہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک ہو گئے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے جب سے دنیا میں آنکھ کھولی ہے ملک کے حالات خراب ہی دیکھے ہیں اور یوں لگتا ہے خراب ہی رہیں گے۔ امید کرتی ہوں کوئی تو آئے گا جو اس ملک کی بہتری کیلئے سوچے اور اس بے حس قوم کو سوتے ہوئے جگائے۔