بیان سینیٹر رحمان ملک کا اور بھارتی کمانڈرانچیف؟
جہاں تک بھارت میں دہشت گرد وزیراعظم مودی کے منصوبے کے تحت مسلمان دشمن شہریت ایکٹ کے نفاذ اور متنازعہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والے عوام پر ریاستی دہشت گردی اور بدترین قسم کے مظالم کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان کی طرف سے عالم اسلام اور بیرونی دنیا کو حقیقت حال سے پوری طرح آگاہ کرنے کی خاطر طویل المدت منصوبہ بندی کی اولین ضرورت ہے۔
ایسی منصوبہ بندی کے بغیر کشمیر اور بھارت کے کم و بیش بائیس کروڑ مسلمانوں کی حالت زار کو ظاہر کئے بغیر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس حوالے سے حصول مقصد کیلئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ضرورت اور اہمیت کو اولیت نہ دینا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے جہاں صرف منہ زبانی باتوں سے کام چلایا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت جیسے پاکستان اور اس کے عوام کی سلامتی اور تباہی کے خواہاں ملک کے عزائم اور وہاں پر ہونے والے مسلمانوں پر مظالم کو اقوام عالم پر ظاہر کرنے اور ان پر پاکستانی قوم کے من حیث القوم ردعمل کے اظہار کیلئے کئی قسم کے پلان کا فقدان ہے۔
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر پاکستانی تہذیب و ثقافت کے بالکل برعکس ٹاک شوز‘ ڈراموں‘ مزاحیہ پروگراموں سمیت اس نوع کی دیگر نشریات میں جس طرز تمدن‘ بودو باش‘ لباس‘ طرز تخاطب‘ ادب و آداب کی روایات کی نمائش اور تشہیر ہو رہی ہے‘ ان کا پاکستانی ثقافت و نظریات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اس امر کا اظہار بے جا نہیں ہوگا کہ اس سلسلے میں موجودہ ذمہ داران اقتدار نے بھی اپنے حقیقی فرائض کی بجاآوری کی طرف توجہ دینے سے گریز کیا ہے اور برابر کیا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماضی کی بری بھلی حکومتوں کے برعکس میڈیا سے منسلک لوگ ہی ایوان اقتدار کے مکینوں کے اذہان پر قابض ہیں جبکہ ان میں بڑی تعداد ایسے بزرجمہروں سے عبارت ہے جو حصول پاکستان کے مقاصد سمیت قومی تاریخ و ثقافت‘ امہ کے نظریات‘ طرز تمدن اور عوامی امنگوں اور تمنائوں سے قطعی طورپر بے بہرہ ہیں۔
ایسے ’’شہ دماغوں‘‘ پر انحصار کرنے والا کوئی بھی ملک اور وہاں بسنے والی قوم اپنی بقاء دفاع کے مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا کرتی۔ اس قسم کی بگڑی اور بگڑتی ہوئی قومی صورتوں کو سنوارنے میں ہمیشہ حکومتیں اپنا کردار ادا کیا کرتی ہیں اور موجودہ حکومت کو بھی وقت کی اس اہم ترین ضرورت کا احساس کرنا ہوگا۔ اگر ارباب اختیار قومی سوچ اور اپنی قومی تاریخ و ثقافت اور ملکی نظریات کے تقاضوں کو سمجھنے والے اہل علم و ادب اور اہل قلم کی قابل ذکر کھیپ سے لاعلم اور ان کے کوائف سے بے بہرہ ہیں تو پھر میڈیا کو من حیث المجموع کسی بھی ایسے منصوبے یا پلان کی تیاری اور ان سے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ بھارت میں رسوائے زمانہ ہٹلر کے پیروکار مودی کے پورے ہندوستان (بھارت) اور مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے دہشت گردانہ اقدامات پر وہاں کے عوام بالخصوص مسلمان زندہ درگور ہوکر آگ کے شعلوں کی نذر ہو رہے ہیں اور پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کو راگ رنگ اور پاکستانی ثقافت ، اسلام کی سنہری روایات کے برعکس پروگرام سے دل بہلانے سے فرصت نہیں۔ یہ وقت ہے سوچنے سمجھنے اور ملک کے اہل علم و خرد سے مل کر ایسا منصوبہ مرتب کرنے کا جس کے نتیجے میں اقوام عالم کو ملکی میڈیا کے ذریعے یہ حقیقت آشکار ہو کہ بھارت کے عوام کو انسانیت مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ (ختم شد)