موت کا بھی علاج ہو شاید
شادیوں میں جوتا چھپائی کی رسم تودیکھتے ہی آئے ہیں لیکن جوتا دکھائی کی رسم بھی موجودہ حکومت کے اہل اور قابل قدر وزیر کے ہاتھوں دیکھ ہی لی، یہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ ہے کہ وزیر موصوف پروگرام میں شرکت کیلئے گھر سے باقاعدہ شاپر میں بوٹ لے کر آئے اور دوران پروگرام میز پر رکھ دیا۔ کیا اپنا موقف پیش کرنے کیلئے باتوں کے نشتر کم پڑ گئے تھے جو اصل جوتے کی ضرورت پیش آگئی۔ پہلے گھروں میں روایات ہوتی تھیں چھوٹوں کی غلطی کو بزرگ لوگ سختی سے نوٹ کرتے اور ذرا سی کوتاہی یا غلطی پر کہہ دیتے تمہیں جوتے پڑنے والے ہیں۔ اب اگرکوئی بڑی سے بڑی کوتاہی کرے تو ایسی روایات دم توڑ چکی ہیں لہٰذا کہنے والے بھی نہ رہے اور سننے والوں کے اندر بھی وہ احترام اور برداشت نہیں جو ایسے جملے سہہ کر آئندہ ایسے کاموں سے باز رہتے تھے جس کے باعث خفت اْٹھانی پڑی ہو۔ خیر یہ تو گھروںکا معاملہ ہے پھر سیاست اور حکومت کے تو کیا ہی کہنے نہ ان کو کوئی روکنے والا ہے نہ سرزنش کرنے والا، سچ پوچھیں تو اب عوام یقینا" اپنے وزراء کا معیار دیکھ کر پاکستان کے دْنیا میں گرتے ہوئے معیار سے اب زیادہ حیران نہیں ہوتے۔ آج کسی نے سوشل میڈیا پر ایک فلم کا سین بطور ازراہِ تفنن لکھا ہے۔ ہم بھی خیر اسے ذرا طبیعت کو ہلکا پھلکا کرنے کیلئے لکھ اور پڑھ لیتے ہیں اگرچہ اس کا اْوپر کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں اور سچ پوچھیں تو اب موجودہ سیاست، ان کے کارناموں، ان کی سازشوں، طعنوں وغیرہ سے لاتعلق ہی ہوجانے کو دل چاہتا ہے لیکن کیا کیجئے کہ اگر ان سب چیزوں سے عوام بھی براہِ راست متاثر ہو رہے ہوں۔ اگر ہم عوام ان سب کارناموں سے براہِ راست متاثر نہ ہورہے ہوتے تو جی جان سے کہہ دیتے کہ جائیے جو دل چاہے کیجئے۔ خیر فلم کے سین کا تذکرہ ہورہا تھا کہ ایک فلم میں گانے کے دوران کچھ تماش بین اداکارہ رانی کو تنگ کرتے ہیں تو وہ گھبرا کر نیر سلطانہ کی طرف دیکھتی ہے نیر سلطانہ ٹھنڈی سانس بھر کے کہتی ہے، بیٹی اب راجے مہاراجے تو رہے نہیں انہیں"نودولتیوں" سے گزارہ کرنا پڑے گا۔ خیر چھوڑئیے، یہ تو ذرا طبیعت کو تھوڑا خوش کرنے کی کاوش تھی اور سچ پوچھیں تو آج کالم لکھتے ہوئے میرا موضوع یہ تھا بھی نہیںاور نہ ہی میں اس پر لکھنا چاہتی تھی۔ یہ پروگرام تو اب روز کا معمول بنتے جارہے ہیں ہر روز ایک غیر معمولی واقعہ اور ہر وقت ایک دوسرے کی غیبت، سازشیں اور بے شمار شکوے برائیاں سن سن کر ٹی وی اور خبریں دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ لگتا ہے عرصہ دراز سے تمام چینلز پر ایک ہی فلم چل رہی ہے۔ جس میں مولا جٹ اور نوری نت اپنے اپنے گنڈاسے لے کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ زور زور سے ایک دوسرے کو ڈائیلاگ بولتے ہیں اور خون ریزی اور انتقام کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
بہت ہوچکا اب اس سین کا ڈراپ سین ہوجانا چاہئے۔ مجھے آج کا کالم لکھنے کیلئے تیزی سے ہوتی خودکشی کے رجحان نے متوجہ کیا تھا جس کا ایشو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ انسان غربت، افلاس اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار اپنی اپنی سیاست کی دکان چمکانے میں مصروف ہیں۔ انہیں ان موضوعات سے نہ کوئی دلچسپی ہے نہ غرض۔ وہ دن بھر دھواں دھار نفرت بھری تقریریں کرتے اور رات کواپنے اپنے محلوں میں چین کی نیند سوتے ہیں۔ یہی کڑوا سچ ہے اور یہی عوام دراصل حکومت کے آئینہ دار ہے۔ عوام وہ آئینہ ہے جس میں حکومت اپنا چہرہ دیکھنے سے گھبراتی ہے۔ حکومت کی کامیابی اور کارکردگی کا اندازہ لگانا ہوتو اْس کے عوام کی خوشحالی اور بدحالی سے لگا لو۔ عوام کا طرزِ زندگی بتا دے گا کہ حکومت وقت کیسی ہے؟ کچھ تبدیلیاں آپ کو براہِ راست تیزی سے متاثر کررہی ہیں۔ جیساکہ دال70سے270 روپے کلو ہوگئی ہے۔ لال مرچ 180سے480 روپے، چینی 50سے75روپے۔ گھی140 سے220، چاول 90 سے160روپے کلو ہوچکے ہیں۔ باقی پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں نے آپ کو خون کے آنسو رلا دیا ہو گا لیکن زیادہ پریشان مت ہوں وزیراعظم نے ان تمام اشیاء کے نرخ کم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ دکانداروں سے کہہ دیا گیا ہے کہ150 روپے ملنے والی دال کو104روپے میں فروخت کیا جائے۔ معلوم نہیں اس بات پر ہنسناہے یا رونا ہے۔ لیکن فکر مت کیجئے صاحب سکون انسان کو قبر میں ہی ملتا ہے۔ اس لئے اب اپنی باقی ماندہ زندگی میں تو صبر اور سکون کے خواب دیکھنا تو چھوڑ دیجئے۔ الفریڈ جو انسانی نفسیات کا ماہر ہے اپنی تحقیق میں لکھتا ہے کہ مشکلات سے بچنے کی آخری اور انتہائی صورت خودکشی ہے۔ جب انسان کے صبر اور برداشت کی حد ختم ہوجاتی ہے اور سوچ لیتا ہے کہ زندگی گزارنا اس کے لئے ناگزیر ہوچکا ہے اور وہ خیال کرلیتا ہے کہ اب وہ اس دْنیا میں رہنے کے لائق نہیں رہا۔خود سوزی کے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے آخر تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان کیا اس جانب اشارہ نہیں ہے کہ زندگی گزارنا مشکل تر ہوچکا ہے۔ ریاست ِ مدینہ میں حکمران تو دریائے فرات کے کنارے مرجانے والے کتے کے لئے بھی جوابدہ ہوتا ہے۔یہ توپھر انسان ہیں پہلے اس جانب بھی توجہ دیجئے کچھ دن پہلے ایک وزیر کا انٹرویو دیکھ رہی تھی جنہوں نے میزبان کیس وال پر کہ آپ کے گھر کا ماہانہ خرچ کتنا ہوتاہے انہوں نے نہایت لاپرواہی سے کہا یہی کوئی تین چار لاکھ روپے ہوگا۔ اور راقعمہ کو یقین ہے کہ یہ بڑا محتاط جواب ہوگا۔ ورنہ اعداد وشمار اس سے زیادہ ہوں گے۔ پوچھنا صرف یہ ہے کہ ماہانہ10سے15ہزار روپے کمانے والے کہاں جائیں۔ بل ادا کریں یا پیٹ بھر نے کا سامان کریں۔
٭…٭…٭