مشرف کا مقدمہ قومی خزانے کا ضیاع!!
نواز شریف کی حکومت پر مشرف نے شب خون مارا اور اسے ختم کیا تھا۔ مشرف کے بعد NRO کے تحت زرداری حکومت لائی گئی۔ زرداری نے مشرف کو باقاعدہ پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا۔ پھر جب 2013ء میں نوازشریف کی حکومت لائی گئی تو نوازشریف پارٹی نے مشرف سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور مشرف کا کیس آرٹیکل 6کے تحت چلانے کے لئے ایک ’’خصوصی‘‘ عدالت بنائی گئی چونکہ عدلیہ بھی مشرف کی ’’ڈسی‘‘ ہوئی تھی۔ لہٰذا ’’خصوصی عدالت‘‘ میں مقدمہ چلایا گیا۔ کروڑوں روپیہ قومی خزانے سے اس مقدمے پر خرچ کر دیا گیا۔ کئی جج تبدیل ہوتے رہے۔ مشرف کی عدالت میں ایک پیشی پر لاکھوں روپے خرچ آتا۔ ہزاروں پولیس والے اور دیگر سیکیورٹی ادارے ’’پیشی‘‘ کے دن سڑک کے آس پاس ڈیوٹی پر مامور ہوتے مگر ایک دفعہ مشرف صاحب عدالت جانے کی بجائے آرمی ہسپتال چلے گئے۔ اس وقت آرمی کی کمانڈ جنرل راحیل شریف کے پاس تھی۔ بہرحال یہ ’’ڈراما‘‘ چلتا رہا۔ بالآخر ن لیگ کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے مشرف کو بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی اجازت دی اور کہا کہ مشرف صاحب تھوڑے ہی عرصے بعد واپس تشریف لے آئیں گے۔ مگر چودھری نثار خود اپنی پارٹی سے مختلف ’’تنازعات‘‘ کے تحت چلے گئے اور مشرف ابھی تک وطن عزیز میں نہیں آئے۔ کوئی آمر ہو یا سیاسی لیڈر ملک کو ’’صحت مندانہ‘‘ حالت میں دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ جب ان پر زوال آتا ہے تو آناً فاتاً ’’بیمار‘‘ ہو جاتے ہیں اور ملک سے فرار ہونے کے راستے تلاش کرتے ہیں اور یہ ’’اشرافیہ‘‘ اس مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں جیسا کہ آج کل نوازشریف کو جب سزا ہوئی تو فوراً بیمار بھی ’’ نمودار‘‘ ہو گئی پہلے علاج کے لئے سپریم کورٹ نے وقت دیا مگر اس دوران کوئی معقول علاج نہ کرایا گیا۔ دوبارہ جب جیل گئے تو بیماری ’’شدت‘‘ اختیار کر گئی مقصد صرف اور صرف بیرون ملک جانا تھا۔ جیسے بھی ہوا موجودہ حکومت جس نے NRO نہ دینے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اسی حکومت نے نوازشریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اب جب کہ نوازشریف لندن میں ہشاش پشاش چلتے پھرتے نظر آتے ہیں تو حکومت سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹروں نے بھی بیرون ملک جانا تجویز کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبان کا کیا کہنا تھا کہ سرکاری ملاز م سرکاری اداروں سے ایک دوسرے کے خلاف سے تعطیلات لینے کیلئے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ رشوت دے کر بنوا لیتے ہیں۔ مقدمات درج کرانے کیلئے لوگ ڈاکٹروں کو پیسے دے کر اپنی مرضی کی رپورٹس لے لیتے ہیں۔ بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ پرویز مشرف کا مقدمہ تقریباً چار سال بعد اختتام پذیر ہوا۔ چند روز قبل خصوصی عدالت کا فیصلہ جوکہ ’’خصوصی‘‘ تھا، سامنے آیا جس میں جج صاحب نے لکھا کہ مشرف اگر فوت بھی ہو جائے تو تین روز تک اس کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک میںلٹکایا جائے۔ یہ فیصلہ چوں کہ غیراخلاقی، شریعت اور آئین کے بھی خلاف تھا۔ اس فیصلے سے پاک آرمی کے علاوہ عوام الناس کی بھی دل شکنی ہوئی۔ پہلے عرض کیا ہے کہ عدلیہ اور نوازشریف چوں کہ دونوں پرویز مشرف کے ’’ڈسے‘‘ ہوئے تھے۔ خصوصی عدالت کا قیام اور پھر فیصلہ دونوں ذاتی عناد پر مبنی تھے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ایک جنگ میں حضرت علیؓ جب ایک کافر کو مارنے کیلئے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس بدبخت نے آپؓ کی داڑھی مبارک پر تھوک دیا تو حضرت علیؓ نے یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا کہ چونکہ میں نے اللہ کی رضا کے حصول کیلئے اس کو قتل کرنا تھا مگر اب میری ذات اس میں شامل ہوگئی ہے۔ لہٰذا پرویزمشرف کے مقدمے میں نوازشریف اور عدلیہ کی ’’ذات‘‘ شامل تھی۔ مشرف صاحب نے ’’خصوصی‘‘ عدالت کے خصوصی فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تو چند دن قبل ہی ایک اور ’’فیصلہ‘‘ سامنے آگیا جس میں لاہور ہائیکورٹ نے ’’خصوصی عدالت‘‘ کے قیام کو ہی غیرآئینی قرار دے دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک غیرآئینی عدالت کے فیصلہ بھی غیرآئینی تصور ہوں گے۔ ان کی قانونی حیثیت ازخود ختم ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مشرف کے مقدمے میں کروڑوں روپیہ جو ملکی خزانے سے لٹایا گیا۔ اس کا حساب اب کون دے گا؟ قومی خزانہ تو عوام کی امانت ہے، عوام غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور ایسے میں ملکی خزانہ کب تک ضائع ہوتا رہے گا؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔‘‘ بہرحال اداروں کو خود احتسابی سے کم لینا ہوگا جب آپ میں ہمت ہی نہیں ہے تو ایسے مقدمات میں الجھنے کی ضرورت ہی کیا؟
٭…٭…٭