• news
  • image

’’فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘‘

محبت رنگ ، خوشبو اور موسموں کے ہمراہ سفر کرنے والے شاعر فراز احمد فراز کا جنم دن بارہ جنوری ہے۔ جب یخ بستہ ہوائیں اور سرد موسم احساس میں شدت اور جدت کو بڑھا کر شاعروں سے نئے نئے خیالات اظہار اور احساس کے نئے انداز کو پروان چڑھاتا ہے۔ احمد فراز نے شاعری کی بے شمار کتابوں اور شعراء کے ہجوم میں شاعری میں جدت، اظہار اور احساس کے جذبے کو محبت کے اچھوتے جذبوں سے اس طرح ہم آہنگ کر دیا کہ وہ کہہ اُٹھے:
محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز
گم نام زندگی تھی تو کتنا سکون تھا
فراز کی شاعری روایتی اور جدید زمانہ کی شاعری کا حسین امتزاج ہے۔ خیالات کی وسعت، جذبوں کے برملا اظہار، دو دلوں کی دھڑکنوں کی آواز اور جدائی کی ساعت اور اس طرح کے ان چھوٹے خیالات نے اُنہیں عظیم شاعروں کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
احمد فراز میں یہ قابلیت تھی کہ انہوں نے محبت کو مختلف اندازسے جانچا، ہجر، وصال ، تنہائی، اداسی ، ویرانی، امید ناامیدی، انتظار جیسی کیفیات سے گزر کر جب رومانوی شاعری کی تو وہ شاعری بول اُٹھی
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
شاعری کا سمندر تو بہت وسیع ہے۔ اس کی تہہ میں اُتر کر گہر نایاب لانا مشکل کام ہے۔ کئی شاعروں نے تو اسے سمندرِ لاحاصل اور آگ کا دریا جیسے ناموں سے بھی نوازا۔ یہ فن احمد فراز خوب جانتے تھے۔ وہ انسان کے اندر کی کیفیات اور محسوسات کا برملا اظہار ، عشق کے جذبوں کے پروان چڑھنے کی روداد فراز کے ہاں شِدت سے موجود ہے۔ ترنم، موسیقیت اور عشق کی وجدانی کیفیات درحقیقت سُننے اور پڑھنے والوں کا لطف دوبالا کر دیتی ہے۔
سُنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اسکے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
اُن کی کتاب تنہا تنہا 1958ء میں منظر عام پر آئی جب وہ طالب علم تھے یہ وہ دور تھا کہ انہوں نے بہت جلد اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف اپنے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ نامور شعراء کے درمیان اپنی منفرد جگہ بنا لی۔ پھر مسلسل آنیوالی کتابوں، درد آشوب ، جاناں جاناں ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر آئینہ، سب آوازیں میری ہیں۔ پس انداز موسم اور پیمان نے انہیں اپنے عہد کا منفرد شاعر بنا دیا
وہ مروت سے ملا ہے تو جھکا دوں گردن
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے
درد جب درد آشوب بنتا ہے تو پورا وجود ہی کرب میں ڈھل جاتا ہے غم دوراں کے بعد جب غم جاناں بھی مل جائے تو ذات میں کہیں شور و فغاں باہر کے شور سے بڑھ جاتا ہے
ہم ترے عشق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں
جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہو جائیں
اس کرب، درد، بے لوث محبت، جنون کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی میں اسکے نقصانات، اور اتار چڑھائو کا بھی کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں۔
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فراز تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی
ایک اور جگہ لکھتے ہیں…
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جُدا ہو جائیں
فرازکے اندر وہ منجھا ہوا شاعر ہے جو زمانے کے اُلجھے بکھرے رویوں سے بھی باخبر ہے۔ گمشدہ محبت کے کرب سے بھی واقف ہے اور درد آشوب کو سہنے کا ہنر بھی جانتا ہے اور اپنے لفظوں میں بڑی مہارت سے اس گلہ، بے بسی اور شکایتوں کا ذکر کرتا چلا جاتا ہے۔
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
ایک اور جگہ کہتے ہیں۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن