ملک مشکل صوتحال سے دوچار، کسی کو احساس نہیں، قومی اتحاد وقت کی ضرورت ہے: چوہدری نثار
اسلام آباد (محمد نواز رضا وقائع نگارخصوصی) پا کستان کے سینئر سیاست دان و سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ افسوس ناک امر یہ ہے اس وقت ملک ’’بند گلی ‘‘کی طرف جا رہا ہے بلکہ ہر کوئی ’’بند گلی‘‘ میں جا رہا ہے اگر میں اس بارے میںتفصیل میں جائوں تو پھر یہ بہت لوگوں کے لئے مسئلہ بن جائے گا سب سے پہلے ملکی نظام کار چلانے کے لئے سٹریٹیجی ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس وقت سرے سے کوئی سٹریٹجی ہی نہیں ملک نے شمال کی طرف جانا ہے یا جنوب کی طرف۔ مغرب کی طرف دیکھنا ہے یا مشرق کی طرف۔ ملک کی سمت کا تعین کرنا ہماری اولیں ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بات اتوار کو نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی، پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ان کا پرنٹ میڈیا سے پہلا انٹرویو ہے، انہوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے جب ان سے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بارے میںاستفسار کیا جاتا ہے تو ان کا کہنا ہے’’ میرے حلقے کو اس بات کی فکر نہیں لیکن ان کو زیادہ فکر لاحق ہے جو میرے نشست خالی ہونے پر للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘‘ نوائے وقت نے چوہدری نثار علی خان سے استفسار کیا کہ’’ آپ میدان سیاست کے اہم کھلاڑی ہیں لیکن آپ نے 25جولائی2018ء کے عام انتخابات کے بعد خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ آخراس خاموشی کی کیا وجہ ہے؟ آپ چپ کا روزہ کب توڑیں گیَ؟ اکثر محافل میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا؟ پورے ملک کی نظریںآپ پر لگی ہوئی ہیں کہ ’’ سیاسی کھلاڑی‘‘ کس پوزیشن پر کھیلے گا؟ تو چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں کوئی بڑا سیاسی کھلاڑی تو نہیں لیکن پچھلے چار عشروں سے مختلف حیثیتوں سے ایک سیاسی کارکن کے طور پر عوام کی خدمت کر رہاہوں۔ بھلا کو ئی سیاسی کارکن کب میدان سیاست سے اپنے آپ کو کیونکر الگ تھلگ رکھ سکتا ہے۔ جہاں تک خاموشی کا تعلق ہے ہر روز ہی ملکی سیاست میں شورو شرابہ لگا رہتا ہے۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سیاسی جنگ وجدل سے بھرا پڑا ہے۔ روز روز طرح طرح کی خبریں آرہی ہوتی ہیں۔ میرے نہ بولنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کا قول ہے جب شور و غل زیادہ ہو اور اختلاف حد سے زیادہ بڑھ چکا ہو اور دلیل کی کوئی کوئی وقعت نہ ہو تو اس وقت خاموشی ہزار نعمت ہو تی ہے۔ میں سمجھتا ہوںآج کل کا جو سیاسی ماحول ہے، سیاسی لڑائی جھگڑوں نے سچ اور جھوٹ میںتمیز ختم کر دی ہے۔ اس لئے میں چپ رہنا ہی بہتر ہے کو درپیش مسائل کے حل کے بارے میں استفسار پر انہوں نے کہا کہ اس وقت تبصروں سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ حکمران وقت کو عمل کرنے کی ضرورت ہے لیکن مجھے بہت سارے معاملات میں دور دور تک عمل نام کی چیز نظر نہیںآ رہی۔ میرے تبصروں سے اگر ملک کے حالات بہتر ہو سکتے تو ضرور تبصرے کرتا، تبصروںکی کمی نہیںعمل کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک مشکل صورت حال سے دوچار ہو تو اس وقت ’’ احساس ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہمیں ملک کو کس طرح صحیح سمت کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے کسی اس کا احساس نہیں ہے۔ حالات کی نزاکت کا احساس نہیں ہم روزمرہ کا بزنس نمٹانے کی روش پر چل رہے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اتحاد کی ہے۔ مختلف گروہوں میںبٹی قوم کو قومی ایجنڈے پر متحد کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے میں نے اپنی زندگی میں اتنی منقسم قوم نہیں دیکھی اس وقت ملک میں شاید سب کچھ ہو گا لیکن سیاسی استحکام نہیں ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک کی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ ملکی سطح پر سٹریٹیجی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ اللہ نہ کر پاکستان جو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بندگلی میں چلا جائے تو ہمارے لئے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاست دان قابل، محب وطن اور معاملہ فہم ہیںلیکن بدقسمتی سے باہم دست و گریبان ہیں مجھے تو ملک کے سیاست دانوں کا ایک پلیٹ فارم پر دور دور تک اکٹھے ہونا نظر نہیںآتا۔